اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا فیصلہ کے خلاف نظرثانی درخواستوں پر تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگی؟الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لکھیں ناں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کی تھی یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاؤ نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں ۔12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے کیا ہوا اس پر بھی مٹی پاؤ؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو ،الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا یہ ادارہ ہے ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں ۔سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےاعجازالحق کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی ۔کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی ؟کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا موقف درست ہے ۔
اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے ۔عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کئے رکھا ،اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں۔ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شائد ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا سارے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے ،،بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔