یہ بات تواب طے شدہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں تمام ترکوششوں کے باوجود سابق وزیراعظم محمدنوازشریف کولاتعلق نہیں کیا جاسکتا، غالباً کافی لوگوں نے حقیقت کوقبول کرلیاہے،دیرآئددرست آئد کی مصداق یہ اچھی بات ہے،حقیقت ایک نہ ایک دن سامنے آنی ہوتی ہے ا وریہ ایک دن ہوناتھاکیونکہ جس ”حسن انداز“ سے نوازشریف کوسسٹم سے نکالا گیاوہ ظاہرکرتاتھاکہ یہ ایک ”گریٹ ڈرٹی گیم“ تھی مگر اس وقت کچھ لوگ خاموش تھے،کچھ مجبورتھے،کچھ ایکٹوبلکہ بہت ایکٹوتھے،اب activeڈی ایکٹوہیں،بلکہ ”گریٹ ڈرٹی گیم“ کے تقریبا تمام کردارختم ہوچکے ہیں،سینیٹراسحق ڈارکی بطوروزیرخزانہ واپسی ایک خوش آئند اقدام ہے کیونکہ یہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی سیاسی بصیرت ہے کہ وہ سسٹم میں پھراہمیت اختیارکرگئے ہیں کیونکہ ملکی سیاسی نظام میں ان کوeliminate کرنے کی متعدد کوششیں ناکام ہوئی ہیں اس لئے ان کی حقیقت کوتسلیم کرلیا گیاہے،لہٰذا2023ء کے عام انتخابات بڑی دھوم دھام سے ہوں گے،مسلم لیگ ن،تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کوانتخابات کیلئے لیول پلینگ فیلڈملے گی اورخوب میدان سجے گا،اس کیلئے ضروری ہے کہ سا بق وزیراعظم نوازشریف کوعدالتی ریلیف دیاجائے تاکہ وہ پارٹی کی کمان سنبھال کرپارٹی کوسیاسی میدان میں اتارسکیں،اگربدقسمتی سے ایسانہ ہواتوپھرسیاسی نظام گدلا ہوجائے گااس لئے سب کومل کراس نظام کوبچانے کیلئے ان کی واپسی کے مسئلے پرایک ہوناچاہئے،ویسے بھی اطلاعات ہیں کہ نوازشریف اس ماہ کے آخرتک پاکستان آسکتے ہیں اگرانہیں عدالتی ریلیف نہ بھی ملا توواپس آئیں گے۔
معاشی اعتبارسے اس وقت ملک کی معیشت جس نہج پرآچکی ہے اس سے اسحق ڈارجیسے ماہراقتصادیات ہی نپٹ سکتے ہیں کیونکہ کسی بھی نظام میں وزارت خزانہ کاقلمدان ایک ایسی قومی ذمہ داری ہوتی ہے جس کے بل بوتے پرایک سیاسی حکومت عوامی ریلیف بارے بڑے بڑے سیاسی فیصلے کرتی ہے،حکومت کے حالیہ تلخ فیصلوں کے روشنی میں جوکڑوے فیصلے لئے گئے اس میں بلاشبہ عوام پرمہنگائی کاایک حقیقی سونامی آیا،جس سے ہرایک طبقہ پس کررہ گیا،تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مشکل دورمیں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے جس طرح معاشی چیلنجزکاسامناکیااورحکومت کوایک سہارا دیاوہ قابل ستائش ہے مگراب چونکہ پاکستان ڈیفالٹ کی پوزیشن سے نکل گیاہے اوراس وقت اصل بات معاشی پالیسیوں میں استحکام چاہئے جس کے لئے سینیٹراسحق ڈارکی ہی ضرورت تھی۔
سینیٹراسحق ڈارکیلئے بطوروزیرخزانہ 8بڑے چیلنجز ہیں جن سے انہیں ہرحال میں نپٹناہے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آسکے،یہ چیلنجز سیاسی نظام اورمعاشی نظام سے جڑے ہوئے ہیں جن سے ملک کامستقبل Linkedہے۔ان میں
چیلنج نمبر1۔ملکی معاشی صورتحال کوقابوکرنے کیلئے ڈالرکے اتارچڑھا پرکنٹرول ہے،
چیلنج نمبر2۔عوامی فلاح وبہبود کی غرض ریلیف دینے کیلئے مہنگائی پرکنٹرول حا صل کرنا
چیلنج نمبر3۔ملک بھرکے سیلاب زدہ علاقوں ومتاثرین کی بحالی کیلئے بڑے اقدامات
چیلنج نمبر4۔ورلڈ بینک اورعالمی بینک سے موثراوردیرپابات چیت
چیلنج نمبر5۔ملکی وغیرملکی سرمایہ کاری کیلئے انویسٹرزکے اعتماد کی بحالی
چیلنج نمبر6۔ملکی معیشت کاپہیہ رواں دواں رکھتے ہوئے بے روزگاری کابتدریج خاتمہ
چیلنج نمبر7۔ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کیلئے کمرشل بینکوں کے شرح سود میں کمی شامل ہے۔
یہ وہ ایشوزہیں جن سے سینیٹراسحق ڈارنپٹناہے اورملک کوخوشحالی کی طرف لاناہے،اورانہیں یہ ذہن میں رکھناہوگاکہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے،اگلا بجٹ بھی ان کے ذمہ ہوگا۔تب تک کیلئے ان کے لئے Best Wishes.۔
بات ہورہی تھی کہ ”ڈرٹی گریٹ گیم‘‘ کی تواس کے کچھ کردارابھی باقی ہیں جن وزیراعظم شہباز شریف،مریم نواز اور دیگر وزرا کی آڈیولیکس کر رہے ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ گیم ختم ہوچکی ہے۔ آڈیولیکس کاسب سے بڑا نقصان وزیراعظم محمدشہباز شریف کی سیلاب زدگان کی مدد کیلئے دن رات کی گئی کاوشوں کو نقصان پہنچاناہے،یہ حقیقیت ہے کہ سیلاب سے جس قدرتباہی آئی وہ اوران کی ٹیم نے بڑی محنت کی،ان میں ایک بڑا حصہ بلاول بھٹو زرداری کابھی ہے جواس بات کے گواہ ہیں کہ واقعی وزیراعظم ”شہبازسپیڈو“ہیں جنہوں نے چاروں صوبوں کوسیاست سے بالا تر ہوکرتمام تر وسائل مہیاکئے تاکہ متاثرین کی دادرسی ہوسکے۔ایسے وقت میں جب وزیراعظم شہبازشریف اقوام متحدہ کے کامیاب دورے،امریکی صدر جوبائیڈن،روسی صدر ولادی پیوٹن،فرانس کے صدرایمانوئل میکرون اوربل گیٹس سمیت عالمی رہنماؤں و مالیاتی اداروں کے ذمہ داران سے کامیاب ملاقاتوں کے بعد واپس آئے ہیں انہیں سیاسی طورپرایک مبینہ آڈیولیکس کے زریعے embarass کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی جوظاہرکرتاہے کہ دم توڑتے ہوئے سسٹم کیلئے یہ بدلتاہوا موسم قابل قبول نہیں،حالانکہ مریم نوازکے داماد راحیل کے خاندان بارے سبھی جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کی ایک معروف بزنس فیملی ہے جن کے نہ صرف پاکستان بلکہ عرب حکمرانوں میں خاص مراسم ہیں،راحیل منیرکے پاورپلانٹ اورگرڈ اسٹیشن کی تنصیب کیلئے مشینری امپورٹ ایک معمول کابزنس ایڈونچرہوتاہے جوتمام کاروباری حلقوں کیلئے ملکی قوانین کی روشنی میں دستیاب ہوتاہے،کاروباری حلقے بھارت سمیت پوری دنیا سے قواعد کے مطابق مشینری منگواتے رہتے ہیں،بلکہ اس معاملے میں عمران خان کی کابینہ کے رکن عبدالرزاق داؤ بہترطورپرجانتے ہیں۔نومبر میں جہاں بدلتے موسم کی بات ہے تواس میں بعض نجومی صحافی مختلف طرح کی افواہیں اڑا رہے ہیں کہا کہ اہم تقرریوں کے حوالے سے مختلف تاریخیں بہت اہم ہیں جن میں پہلی تاریخ 29 ستمبر2022 ہے جس میں اہم تقرری کاانتظار کیاجارہاہے،اگریہ ہو جائے توپھر26نومبرکی تاریخ اہمیت اختیارکرجاتی ہے اوراگریہ کسی اہم تقرری کے بغیرگذرگئی توپھر28نومبر کی تاریخ اہمیت حاصل کرجائے گی،اس طرح قوم کوبعض نجومیوں نے ان تاریخوں میں الجھارکھارہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ جوہوگا وہ آئین اورقانون کے مطابق ملک کی بہتری کیلئے ہوگا اس لئے نجومیوں کی باتوں میں قوم کوآنے کی ضرورت نہیں۔