اسحاق ڈار ایک معاشی حکمت کار کے طور پر پاکستان پہنچ چکے ہیں ان کی آمد کے حتمی فیصلے کا اعلان ہوتے ہی مارکیٹ میں مثبت رجحان پنپنا شروع ہو گئے۔ بروز پیر اسحاق ڈار کے پاکستان پہنچنے والے دن ڈالر نے کمزوری دکھانا شروع کر دی، روپیہ تگڑا ہونے لگا، مارکیٹ اور اوپن مارکیٹ میں قدر زر میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسحاق ڈار نے لندن سے روانگی سے قبل ہی متعلقہ ذمہ داران سے اپنی معاشی حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے معلومات اکٹھا کرنا شروع کر دیں۔ ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ کرنسی مارکیٹ میں ناجائز کھیل کھیلنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کاعندیہ بھی دیا۔ 14 بینکوں/ بینکاروں کے ساتھ نمٹنے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا بھی فیصلہ سننے میں آیا کیونکہ اطلاعات کے مطابق یہ لوگ ڈالر کو ناجائز طور پر اوپر نیچے کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہوں یا بجلی کے نرخ مرکزی حکومت کی حکمت عملی یہ نظر آ رہی ہے کہ کوئی حکمت عملی نہیں ہے حکومت کو جو کچھ اوگرا اور نیپرا پٹی پڑھاتے ہیں، حکومت اور اس کے اہلکار وہی سبق دہرانے لگتے ہیں یہ ادارے حکومت کو جو کچھ دکھاتے ہیں حکومت ویسا ہی کچھ دیکھنے لگتی ہے۔ حکومت کی اپنی کوئی فکرونظر کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ ان شعبہ جات میں بھی مفاد یافتہ اور مفاد بردار طبقات کی حکمرانی نظر آ رہی ہے۔ حکومت ایسے طبقات کو لگام دینے اور عوامی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔
اشیا ضروریہ اور عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرنا اور مارکیٹ نظم و نسق قائم رکھنا صوبائی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف محکمے بھی موجود ہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ ایک ہی بازار میں، ایک ہی مارکیٹ میں دکاندار مختلف قیمتوں پر ایک ہی طرح کی اشیا فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ دکانداروں کو اگر کچھ کہا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم آپ کو گھر بلانے گئے تھے کہ آپ ہمارے پاس خریداری کے لئے آئیں، حد تو یہ ہے کہ ایک ہی قطار میں کھڑے ریڑھی فروش بھی من مانی قیمت پر سبزیاں اور پھل بیچتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ پنجاب میں مارکیٹ کمیٹیاں بھی غائب ہیں۔ اوزان کے لئے صوبہ پنجاب میں وزارت صنعت و تجارت کے زیرانتظام ایک باقاعدہ محکمہ قائم ہے لیکن وہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ پٹرول پمپ مالکان پٹرول کے حجم میں سرعام ہیراپھیری کرتے
رہتے ہیں۔ عوام کو شکایات ہیں لیکن وہ کس کے پاس جائیں، کہاں رپورٹ درج کرائیں۔ متعلقہ وزیر سیاسی امور نمٹانے میں مصروف ہیں۔ ق لیگ کے وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کے سینئر منسٹر جو وزیر صنعت و تجارت بھی ہیں کے درمیان چپقلش اور اختیارات کے استعمال کے حوالے سے کشیدگی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کابینہ وزیراعلیٰ کی ہے لیکن وہ رپورٹ سینئر منسٹر کو کرتی ہے۔ حکومتی معاملات درست نظر نہیں آ رہے ہیں۔ عوامی معیشت کے معاملات شدید بحران کا شکار ہیں۔
ایسے حالات میں خوفناک سیلاب نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ سرکاری ترجیحات، اگر پہلے کوئی تھیں تو وہ اب بدل گئی ہیں، سرکاری مشینری نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے نام پر لوکل ذمہ داریوں سے فارغ تصور کرنا شروع کر دیا ہے۔ محکمانہ کارکردگی جو پہلے ہی مشکوک تھی سیلاب کے نام پر بالکل ہی دگرگوں ہو چکی ہے۔ فیصلہ سازی اور وہ بھی غلط انداز میں، عوام کے لئے سوہان جسم و جاں بن چکی ہے۔ قدر زر میں انتہائی گراوٹ اور ناقابل برداشت حد تک مہنگائی نے معاملات دگرگوں کر دیئے ہیں دوسری طرف سیاسی بدامنی اور بے یقینی کے باعث نہ صرف بہتری کی امید ختم ہو چکی ہے بلکہ سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے ہاتھ روک لیا ہے۔ عمران خان نے اپنے 44 ماہی دور حکمرانی میں سی پیک منصوبوں کو بھی روک دیا تھا، دوست ممالک بشمول سعودی عرب، یو اے ای، کویت، ترکیہ، ملائیشیا جیسے دوست ممالک کے ساتھ بھی تعلقات سردمہری کا شکار ہو گئے تھے۔ مسلسل سیاسی محاذ آرائی کا ماحول برقرار رکھنے کے باعث عمران خان کے دور حکمرانی میں معاشی معاملات اس قدر دگرگوں ہو گئے تھے کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بھی گراوٹ کا شکار ہو گئے تھے۔ جس کے باعث آئی ایم ایف نے جاری پروگرام روک دیا تھا اور ڈیفالٹ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
اتحادی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں جب حکومت سنبھالی تو اعلان کیا گیا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا اور لوگوں کو معاشی مشکلات سے نکالا جائے گا۔ قوم کو شہباز شریف کی صلاحیتوں پر بڑا ناز تھا وہ عمران خان کے بدترین دور حکمرانی کے ستائے ہوئے تھے لیکن اتحادی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں روزِ اول سے ہی آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے کہا گیا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنا بلکہ پہلے سے طے شدہ معاملات کے مطابق آگے بڑھنا ضروری ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم کئے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ عوام کو کہا گیا کہ مہنگائی کی کڑوی نہیں زہریلی گولی نگلنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی قسط کے اجرا کے بعد مالی و اقتصادی معاملات میں بہتری نظر آئے گی لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے، قسط جاری ہونے کے باوجود معاشی معاملات دگرگوں ہی چل رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوتے چلے جانے کے باوجود یہاں ہمارے ہاں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل بڑھائی چلی جا رہی ہیں مہنگائی کا سرا ہاتھ نہیں آ رہا ہے اشیائے صرف و ضروریہ کی گرانی، ڈالر کی اڑان اور قوم پر چھائی ہوئی مایوسی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسے میں اسحاق ڈار کو میدان میں اتارنا ایک صائب فیصلہ نظر آ رہا ہے۔ آپ کامیابیوں اور کامرانیوں کی ایک تاریخ کے حامل ہیں۔ ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے اور درست سمت میں گامزن کرنے کے حوالے سے اسحاق ڈار کا ریکارڈ بڑا واضح اور روشن ہے۔ اجڑی ہوئی قوم بڑی شدت سے اسحاق ڈار کی کامیابیوں کی منتظر ہے کیونکہ ہمارے پاس اب اس کے علاوہ کوئی اور آپشن ہی نہیں ہے۔ قوم اسحاق ڈار کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے، سوائے پی ٹی آئی کے۔