اہم ترین حکومتی شخصیات کی وزیرِ اعظم کے گھر ہونے والی بات چیت کی آڈیوریکارڈنگ افشا ہونے سے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ وزیرِ اعظم کا گھر ہی جب غیر محفوظ ہے تو ملک میں آیاایسا کوئی اور مقام ہے جس کے بارے وثوق سے کہہ سکیںکہ وہ مکمل طورپر محفوظ ہے ؟کیونکہ بات ریکارڈنگ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ ریکارڈنگ ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش کر دی گئی ہے جسے دشمن ملک بھی ادائیگی کے بعد خرید سکتا ہے بات چیت کی آڈیو لیک ہونے سے اِس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کے اہم ترین منصب پر فائز شخصیات اور مقامات تک نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ فیصلے ،بات چیت اور مشاور ت کچھ بھی خفیہ رکھنا ممکن نہیں رہا لہٰذا یہ جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ یہ ڈیٹا افشا کیسے ہوا؟آیا وزیرِ اعظم کے گھر گفتگو ٹیپ کرنے کے لیے ڈیوائسز لگائی گئیں یا فو ن ٹیپ کیے گئے ؟ظاہر ہے جو بھی ہوا ہے کسی اہم ترین اور بااختیار کی تائید ومنشا کے علاوہ ممکن نہیں ہو سکتا ملک کے اہم ترین مقام کے غیر محفوظ ہونے سے سنجیدہ حلقوں کے ذہنوں میںاب ہزار ہا قسم کے سوالات مقام بنانے لگے ہیںآڈیو لیکس کے متعلق ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے مگر یہ سلسلہ اکٹھے ہونے،بیٹھنے اور گپ شپ تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ جو بھی ملوث ہے اُس کی صرف نشاندہی ضروری نہیں بلکہ کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے وزیرِ اعظم ہائوس کے عملے کی تفتیش کے ساتھ اِس بات کا جائزہ لینا بھی اشد ضروری ہے کہ اُس وقت کسِ اِدارے کے کون کون سے ایسے آفیسر تعینات تھے جن کے پاس ایسے وسائل تھے اور اُنھیں ہر جگہ آزادانہ نقل و حرکت کی مکمل آزادی تھی نیز ریکارڈنگ کرنے کے کیا مقاصد تھے یہ بھی جاننا انتہائی اہم ہے ۔
وزیرِ اعظم کے گھر سمیت اہم مقامات سے خفیہ ریکارڈنگ اور آڈیو لیکس کا معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ معمولی جان کر نظر انداز کر دیا جائے بلکہ گہرائی تک جا کر ساری سازش کا پتہ چلانے سے مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے ویسے بھی موجودہ حکومتی اتحاد کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے سے لیکر اقتدار میں آنے تک کاعمل پہلے ہی رسوائیوں اور الزامات کی ایک طویل داستان ہے اور اب جب حکومت اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے رسوائیوں اور الزامات کی فہرست کا مزیدطویل ہونا ظاہرکرتا ہے کہ کچھ حلقے اِن سے بے چین ہیں اور آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی روکنا چاہتے ہیںعلاوہ ازیںایسے خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد کو لانے اور اب گھر کی راہ دکھانے میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسے کردار متحرک ہیں جو سازشوں کے تانے بانے بُننے سے لیکر عمل کرانے پر بھی قادر ہیں اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ آڈیو لیکس کو چاہے کوئی اہمیت دے یا غیر اہم جان کر نظرانداز کرے شہباز شریف کا کردار بطور وزیرِ اعظم
نیک نام نہیں رہابلکہ اُنھیں ایک ایسے منتظم کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے جو فرائض کی ادائیگی تو ایک طرف،خود اپنی حفاظت سے قاصر اور زمانے کی دستِ برد میں ہے مزیدیہ کہ ایک بار پھر شریف خاندان کے بھارت سے وابستہ مفادات بے نقاب ہوئے ہیںحالیہ آڈیو لیکس کے بعد ایسے الزامات کے حوالے سے مزید کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت نہیں رہی۔
وزیراعظم حلف اُٹھاتے وقت اقرار کرتا ہے کہ بطور وزیرِ اعظم وہ کبھی کسی نوعیت کے ذاتی فائدے کے لیے ہرگز کام نہیں کرے گا نہ ہی اپنے کسی رشتہ دار یا قریبی کو نفع پہنچانے کی کوشش کرے گا مگرآڈیو لیک سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس حوالے سے کرائی گئی یقین دہانیوں پر زیادہ عمل نہیں کیا جاتاشہباز شریف نے منصب کا حلف اُٹھاتے وقت جو یقین دہانیاں کرائی تھیں اُنھوں نے بھی اُن کی صریحاََ خلاف ورزی کی ہے دشمن ملک سے چوری سامان منگوانے کو حلف کی پاسداری ہرگز نہیں کہہ سکتے اِس کے ساتھ ایک مزید اہم بات کی نشاندہی یہ ہوئی ہے کہ ماضی میں بھی اِس منصب پر فائز رہنے والے گاڑیوں کے حصول کے دوران حلف کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور پھر چیئرمین نیب کے لیے غیر جانبدار کے بجائے ایسا جانبدار بندہ تلاش کرنے کی بات ،جو اشارہ ابرو پر تمام قواعد و ضوابط بالائے طاق رکھ کر کورنش بجا لائے ایسی باتوں سے نہ صرف حکمرانوں کی نیک نامی متاثر ہوئی ہے بلکہ سفارشوں اورقومی خزانے کے خلاف عرصہ سے جاری سازشوں کے منظرِ عام پر آنے سے ملک کی روزبروز کھوکھلی ہوتی معیشت کی بابت عوام کی معلومات میں بھی وسیع اضافہ ہوا ہے۔
ایک گفتگو میں الیکشن کمیشن کی جانبداری بے نقاب ہوئی ہے جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ اِدارہ غیر جانبدار یا خود مختار نہیں بلکہ ملنے والی حکومتی ہدایات کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے سناتاہے نیز پارلیمنٹ سے باہربیٹھا ایک شخص ممبرانِ پارلیمنٹ کے استعفوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار رکھتاہے یہ سپیکر کے منصب کی بے اختیار ی اور بے قدری ہے جو اِس امرکا ثبوت ہے کہ حکمران اپنی سیاست کے سوا ملک یا قوم کو کچھ اہم نہیں سمجھتے مزید یہ کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس فیصلوں کاکوئی اختیار نہیں بلکہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور ہمارے حکمران ملنے والی ہدایات پرمحض عملدرآمد تک محدود ہیں ایک آڈیو میں اپنے ہی وزیرِ خزانہ کا مذاق اُڑایا جاتاہے اِن باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ برسرِا قتدار یہ لوگ اپنی سیاست بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اِس دوران اپنے اور بیگانے کو رگیدنابھی جائز تصور کرتے ہیں ۔
تمام تر غلطیوں کے باوجودپھر یہی سوال ہے کہ جب کوئی بات وزیرِ اعظم کے گھر میں بھی راز نہیں رہتی تو ایسی جگہ پر قومی سلامتی کے حوالے سے حساس ترین معاملات پر اجلاس کرنا مناسب ہے؟ جب کسی اِدارے یا ایجنسی کو یہ ہی معلوم نہیں کہ یہاں جاسوسی کس نے کی اور پھر زمانے بھر کو سنا دی اِداروں کے پاس موجودتمام تر وسائل کا کچھ فائدہ نہیں مل رہابلکہ جن اِداروں کی صلاحیتوں کا ہم صبح و شام فخریہ تذکرہ کرتے ہیں اتنی بڑی جاسوسی ہوگئی مگر وہ آج تک لاعلم ہیں وزیرِ اعظم کا گھر توغیر محفوظ ثابت ہو چکا ذرا تصور کریں دوسرے مقامات اور دفاتر کوکیا ہم مکمل طورپرمحفوظ کہنے کی پوزیشن میں ہیں؟ظاہر ہے حالیہ آڈیولیکس کے تناظر میں ایسا کہنااب ممکن نہیں رہا جے آئی ٹی بن چکی ہے اور خفیہ ایجنسیاں بھی اگر متحرک ہوہی گئی ہیں تو تحقیقات کے دوران صرف یہ ہی معلوم نہ کریں کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے گھر میں ہونے والی بات چیت ریکارڈ کرنے کی حرکت کس نے کی بلکہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ ایسا کن مقاصد کے لیے کیا گیا نیز مستقبل میں غوروفکر کے بعد ایسے سنجیدہ اور موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ راز کی باتیں چوپال کی زینت نہ بن سکیں آڈیو لیکس سے حکمرانوں کے بھارت سے وابستہ مفادات بے نقاب ہونے کے ساتھ یہ وضاحت بھی ہو گئی ہے کہ یہ فیصلوں کے حوالے سے قطعی طورپر بے اختیار ہیں اِس لیے انھیں غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں بلکہ یہ ایسے کھلونے ہیں جن سے کھیلنے کی سب کو کُھلی چھٹی ہے یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ جو فیصلوں میں بااختیارہیں غلطیوں کے ذمہ دار بھی وہی ہیں کیا خیال ہے آپ کا؟۔