میں اردو کے عظیم شاعر اکبر الٰہ آ بادی (۱۹۲۱-۱۸۴۵) کا تصور کرتا ہوں تو حافظے کی لوح پر ان کے کتنے ہی لافانی شعر جگمگانے لگتے ہیں، ایسے شعر جو میرے ہی نہیں برعظیم کے اجتماعی حافظے کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔ کیا اس طرح کے شعر بھلائے جا سکتے ہیں یا کبھی بھلائے جا سکیں گے:
خدا کے باب میں یہ غور کیا ہے
خدا کیا ہے، خدا ہے اور کیا ہے؟
الف، ب، ت ہی کو پڑھ کر میں سمجھا
الف اللہ کا اور ماسوا بُت
رقیبوں نے رَپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
طفل میں بُو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ تو ڈِبے کا ہے، تعلیم ہے سرکار کی
دو مرادیں جو ملیں چار تمنائیں کیں
ہم نے خود قلب کو آرام سے رہنے نہ دیا
بے غرض ہو کر مزے سے زندگی کٹنے لگی
ترکِ خواہش نے ہمارا بوجھ ہلکا کر دیا
سچی بات تو یہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اکبر کے عہد کا تہذیبی اور سیاسی آشوب ہمارے زمانے سے آ ملا ہے۔ یہیں آ کر اکبر ہمارے لیے نئی معنویت کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ اور ان کی عصری اور ماورائے عصر آگہی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ میرا ایقان ہے کہ قدرت ہر درد کی دوا اور ہر زہر کا تریاق پیدا کرتی ہے۔ عالمِ اسلام کی تاریخ کے منظر نامے پر ظہور کرنے والے تاتاری فتنے کا تریاق آنے والوں کے لیے عطار، رومی اور سعدی کے لافانی تخلیقی سرمایے نے مہیا کیا اور انیسویں اور بیسویں صدی کے زہر آشوب کا تریاق اکبر اور اقبال تجویز کرتے ہیں۔ میرے نزدیک بڑا شاعر وہ نہیں جو صرف زبان کا لفظی اور معنوی طلسم کھڑا کرتا ہے، بڑا شاعر اور تخلیق کار وہ ہوتا ہے جو اعلیٰ انسانی اور آفاقی قدروں کو بڑی فنکاری سے ہمارے وجود کا حصہ بنا دے اور ہمارے اندر جینے کی امنگ اور مبارز طلبی کا حوصلہ پیدا کرے۔ اکبر ایک ایسے ہی تخلیق کار ہیں۔ برعظیم کی فکری آزادی اور بیداری میں ان کا کردار آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اکبر کو ”لسان العصر“ کا خطاب کس نے دیا مگر اس کی صداقت اور حقانیت میں کوئی کلام نہیں۔ دو ہزار اکیس کے اس ماہِ ستمبر میں جب اکبر کو اس عالمِ فانی سے رخصت ہوئے پورے ایک سو برس ہو گئے، وہ کل ہی کے نہیں، آج کے بھی ”لسان العصر“ ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ اقبال نے اپنے شہرہئ آفاق خطبے کے لیے الٰہ آباد کی سرزمین کا انتخاب کیا، وہی الٰہ آباد جہاں سے اکبر نے ساٹھ برس تک اسلام کی صداقتوں کا اعلان اور اعلام کیا، مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور اس کی استعماری چالوں کو بے نقاب کیا اور منفرد مسلم تشخص کے خدوخال نہایت خوبی سے نمایاں کیے۔ اقبال نے ان کے بارے میں کس قدر درست لکھا تھا: ان کے کلام کے ظریفانہ لہجے پر نہ جائیے، ان کے شباب آور قہقہے
ان کے آنسوؤں کے پردہ دار ہیں۔ حق یہ ہے کہ بڑا مزاح قہقہوں اور آنسوؤں کے سنگم پر جنم لیتا ہے۔ اس زاویہئ نگاہ سے دیکھیں تو اردو نے ابھی تک ان کے پایے کا مزاح نگار اور طنز نگار پیدا نہیں کیا۔ ایک اور پہلو سے دیکھیں تو یہی طنز و مزاح اکبر کے دیگر بے مثل افکار کے لیے حجاب بھی بن گیا۔ لوگوں نے انھیں محض ہنسنے ہنسانے والا شاعر سمجھ لیا اور ان کی سنجیدہ شاعری کو اس طرح درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جیسا اس کا حق تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے آفاقی سرچشمے سے سیراب ہونے والے اس شاعر نے دین کو اپنے لیے مایہئ افتخار جانا اور برطانیہ کی نہایت قہرمان قوت کے مقابل بڑے اعتماد اور حوصلہ مندی سے اسلامی اقدار کی سچائیوں کو پیش کیا اور اسی دینِ حق سے قوت اور صلابت پا کر برملا اور بلاخوف اس طرح کے شعر کہے:
ان کے مضبوط جہازوں کی مددگار ہے آگ
میری ٹوٹی ہوئی کشتی کا سہارا اسلام
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
سمجھ ہو جس کی بلیغ سمجھے، نظر ہو جس کی وسیع دیکھے
ابھی یہاں خاک بھی اڑے گی
جہاں یہ قلزم ابل رہا ہے
جس قلزم کا اس آخری شعر میں ذکر ہے یہ دراصل وہ قلزمِ خون تھا جسے انگریزی استعمار برعظیم کے حریت پسندوں کا لہو بہا بہا کر وجود میں لایا تھا۔ اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ یہی قلزم خون برطانوی استعمار کے لیے پیغامِ مرگ ثابت ہوا اور اس کے اقتدار کی خاک اڑنے لگی جس کی پیش گوئی حق آگاہ اکبر نے سالہا سال پہلے کر دی تھی۔ یہ معجزہ اکبر کی وفات کے صرف چھبیس برس بعد ظہور میں آ گیا!
عہدِ موجود میں اکبر کے بعض اشعار ہماری افسوس ناک صورت حال کی جیتی جاگتی تصویر لگتے ہیں۔ آج دنیا طلبی، زر پرستی اور علم فروشی کا چلن عام ہو چکا۔ علم کا رشتہ ابدی ہدایت سے کم و بیش کٹ چکا۔ شرافت اور صداقت کا سکہ سرمایہ داری اور صارفیت کے بازار سے بارہ پتھر باہر ہے۔ خواجہ خضر نے رہنمائی اور مسافر نوازی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ایسے میں دھیمے مگر پُردرد لہجے میں اکبر کی آواز ہمارے کانوں اور دلوں میں جگہ بنانے لگتی ہے:
تہہ کرو صاحب نَسَب نامے وہ وقت آیا ہے اب
بے اثر ہو گی شرافت، مال دیکھا جائے گا
جب علم ہی عاشقِ دنیا ہو پھر کون بتائے راہِ خدا
جب خضر اقامت پر ہو فدا تائیدِ مسافر کون کرے!
آپ ہی بتائیے کہ کیا انسان کی آج کی تمدنی صورت حال بالکل ویسی ہی نہیں ہو گئی جیسی اکبر نے بیان کی؟ اور ہاں ہمارے ملک کی سیاست کے گندے جل پر بھی تو ایک نگاہ ڈالیے: طعنہ زنی، تذلیل، گالی گفتار، سب و شتم کے کیسے کیسے مظاہرے روزانہ اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آتے ہیں - گوش فگار اور سماعت سوز! ور اس پر جگ ہنسائی، ایک عالم تماشائی:
اس وقت یہ تمھاری کیا خوش خیالیاں ہیں
آپس کی گالیاں ہیں، غیروں کی تالیاں ہیں
اکبر کا کمال یہ ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں بڑے بڑے نکتے پیدا کر جاتے تھے۔ اپنی نجی زندگی میں بھی ہنسی مذاق کی باتیں کرتے جاتے۔ خود بہت کم ہنستے تھے، دوسروں کو ہنساتے تھے۔ ایک ڈپٹی کلکٹر سے ان کا یارانہ تھا۔ ان سے ملنے جاتے تو ان کے لیے حقہ نوشی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا۔ ایک دن پہنچے تو گفتگو اس امر پر ہو رہی تھی کہ بندر کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا۔ گفتگو اس زور شور سے جاری تھی کہ صاحب خانہ کو حقہ بھروانے کا خیال ہی نہ آیا۔ اکبر نچلے بیٹھنے والے کہاں تھے، بولے: اور تو میں بندر کی بابت کوئی بات نہیں جانتا، بس اتنا معلوم ہے کہ بندر حقہ نہیں پیتا۔ ڈپٹی صاحب چونکے اور گھبرا کر ملازم کو آواز دی: ارے آج کیا حقہ نہیں بھرو گے؟
اکبر اسی بندر کا جب علامت کے پیرائے میں ذکر کرتے ہیں تو وہ استعمار کے اشاراتی پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ یوں اکبر ایک تیر سے کئی شکار کھیلتے ہیں اور ہنسی ہنسی میں انگریز کی معاشی لوٹ کھسوٹ اور ان کے تصور ارتقا کو بڑی خوبی سے بے نقاب کرتے جاتے ہیں:
تمھارے کھیت سے لے جاتے ہیں بندر چنے کیونکر
یہ بحث اچھی ہے اس سے حضرت آدم بنے کیونکر
یا الٰہی یہ کیسے بندر ہیں
ارتقا پر بھی آدمی نہ ہوئے
سر افرازی ہو اونٹوں کی تو گردن کاٹیے ان کی
اگر بندر کی بن آئے تو فیضِ ارتقا کہیے
کیسے کیسے ظریفانہ اور حکیمانہ انداز میں انگریز کے ہاتھوں برعظیم کی دولت کی سفاکانہ لوٹ مار، اس کے غیر انسانی رویے اور مسلمانوں کی تذلیل کو طشت از بام کرتے ہیں۔ اکبر کا بجا طور پر خیال تھا کہ کمزوری اور ضعف حریف کے غلبے اور ظلم کو بڑھاوا دیتا ہے۔ جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کے سوا ہوتی بھی کیا ہے۔ حکومت کی ح کے نہ رہنے سے حنفی نفی ہو جاتا ہے، ہسپانیہ کے مسلمان جلاوطن ہو کر دربدر ہو جاتے ہیں، مغل شہزادے شہزادیاں دلی کی گلیوں میں بھیک مانگتی ہیں:
ح حکومت کی جب نہ ان میں رہی
حنفی نفی ہیں، معطل ہیں
ضعف سے میں جو گھٹا اور بڑھا اس کا ستم
یاں زباں ہل نہ سکی وہ متحمل سمجھا
”اکبری اقبال“ کے دیباچے میں بے مثل نثرنگار حسن نظامی نے کیسے پتے کی بات کہی تھی: اکبر نے اس دھوپ میں بال سفید کیے جس نے سلطنتِ اسلامی کا باغ خشک کر دیا تھا۔