ایک طرف عام شہریوں کے کسی حکومتی ادارے یا محکمے کے بارے میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب اور دیگر معلومات حاصل کرنے کے حق کو تسلیم کرنے کی بات کی جاتی ہے اور پاکستان انفارمیشن کمیشن اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیتا ہے کہ حکومت پاکستان کابینہ ڈویژن کو ایک عام شہری کے اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ وزیراعظم پاکستان کو 18 اگست 2018 سے 31 اکتوبر 2020 کے دوران غیرملکی سربراہان حکومت اور سربراہان مملکت سے کتنے تحائف ملے؟ کتنے تحائف انہوں نے اپنے پاس رکھے، ان تحائف کی قیمت کیا ہے اور وزیراعظم نے ان کے لئے کتنی رقم خزانے میں جمع کرائی؟ کابینہ ڈویژن کے انفارمیشن کمیشن کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا کہ ان سوالوں کے جواب دینے سے پاکستان کے غیرممالک سے تعلقات پر زد پڑتی ہے لہٰذا پاکستان انفارمیشن کمیشن کو روکا جائے کہ وہ کابینہ ڈویژن کو ایسی معلومات مہیا کرنے پر مجبور نہ کرے۔
توشہ خانے سے وزیراعظم عمران خان کے تحائف لینے کے بارے میں عام شہری کے سوال، پاکستان انفارمیشن کمیشن کی کابینہ ڈویژن کو اس بارے میں ہدایت اور کابینہ ڈویژن کے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے اور جمع کرائے بیان کے حوالے سے تفصیل ملک کے نامور صحافی، اینکر پرسن اور ایک قومی معاصر کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن جناب انصار عباسی نے قومی معاصر میں اپنے نام سے چھپنے والی رپورٹ میں پیش کی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل بیان کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں تھوڑی سی اس امرپر روشنی ڈالوں کہ میری طرح کے دیہاتی پس منظر اور پرانی سوچ کے مالک لوگوں کے نزدیک توشے سے متعلق کیا تصور پایا جاتا ہے اور اس سے امانت ودیانت اور ایک طرح کے تقدس کو کیسے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔
لغت میں توشہ سے مراد سفر کا سامان یا زادراہ لیا جاتا ہے اور توشہ خانہ سے مراد ایسا کمرہ لیا جاتا ہے جس میں کھانے پینے کا سامان رکھا ہوتا ہے۔ تاہم میرے ذہن میں توشہ کا تصور، اس سے ذرا مختلف اور کسی حد تک بڑا روایتی اور امانت و دیانت سے متصف چلا آ رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ خاندان یا دورپار رشتہ داروں میں کچھ بڑی بوڑھیاں بھی تھیں۔ انہوں نے پیسہ پیسہ جمع کر کے کچھ رقم اتنے اخراجات میں سے بچائی ہوتی یا اپنی اولاد یا قریبی عزیزوں کی طرف سے کسی موقع پر دیئے جانے والے پیسوں کو سنبھال کر رکھا ہوتا تھا۔ یہ چھوٹی سی رقم یا پیسے انہوں نے اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھ کر یا کپڑے کی کسی گتھلی (چھوٹی سی تھیلی) میں سنبھال کر رکھے ہوتے تھے۔ لڑکے بالے یا کوئی عزیز رشتہ دار ان پیسوں کو ہاتھ لگاتے یا پوچھتے یہ کیا ہے تو وہ آگے سے جواب دیتیں کہ یہ ان کا توشہ ہے جو انہوں نے اپنے سفرآخرت کے لئے سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ اس سے ان کے مرنے کے بعد کچھ کفن دفن کا بندوبست ہو سکے۔
توشہ کا یہ تصور جو میری طرح کے لوگوں کے ذہن میں موجود ہے کیا اس کو رد کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں توشہ خانے اور اس میں رکھے توشوں (سرکاری طور پر ملنے والے تحفوں، تحائف) کے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا ہے۔ امانت اور دیانت تو رہی دور کی بات ہمارے حکمرانوں اور صاحبان اقتدار و اختیار میں سے جسے موقع ملا اس نے ان تحائف کے ساتھ مال مفت دلِ بے رحم کا سلوک کیا۔ اس میں بلااستثنا ہمارے ماضی قریب و بعید اور حال کے سبھی حکمران شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف صدر تھے تو جناب شوکت عزیز ان کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے توشہ خانے میں چھوٹے سے چھوٹے تحفے کی برائے نام قیمت ادا کر کے اس سے اپنی غیرملکی رہائش گاہ کو سجانے میں کچھ کمی نہ چھوڑی۔ پرویز مشرف تو تھا صدر اور اس کے ساتھ کمانڈو فوجی جرنیل بھی۔ وہ توشہ خانے کے مال پر ہاتھ صاف کرنے سے کیوں پیچھے رہتا۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف علی زرداری
صدر مملکت بنے۔ دونوں اپنے دونوں ہاتھوں سے مال و اسباب سمیٹنے کے لئے کب سے مشہور چلے آ رہے تھے۔انہوں نے توشہ خانے کی اشیاء کو مال مفت سمجھ کر خوب لوٹا اور لٹایا۔ یہاں تک ترک صدر طیب اردوان کی اہلیہ نے پاکستان کے دورے پر سیلاب زدگان کی امداد کے لئے اپنے پہنے زیور جو اتار کر دیئے وہ بھی یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ محترمہ کی زیب و زیبائش کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میاں محمد نوازشریف اگرچہ بطور وزیراعظم پاکستان سرکاری خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے اور انہوں نے مدد کے طالب شدید بیمار پاکستانی شہریوں کے علاج معالجے کے لئے اپنے ذاتی وسائل سے وزیراعظم ہاؤس میں ایک
امدادی فنڈ بھی قائم کر رکھا تھا لیکن توشہ خانے میں موجود سرکاری تحائف کو اونے پونے داموں لینے میں انہوں نے بھی کوئی تمیز روانہ رکھی۔
جناب عمران خان برسراقتدار آئے تو ان کا نعرہ اور دعویٰ یہ تھا تحفے اور تحائف لینے والے قومی مجرم ہیں انہیں بخشا نہیں جانا چاہئے۔ وہ کبھی اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی مثال دیتے کہ اسے سرکاری مال سے تحفے لینے پر کیسے اپنی پولیس کی طرف سے سخت پوچھ گچھ اور تفتیش کا سامنا ہے اور کبھی ریاست مدینہ اور امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کے دور کی مثالیں دیتے کہ خلیفہ وقت سے ایک عام آدمی (بدّو) بھی پوچھ سکتا تھا کہ انہوں نے مال غنیمت سے ملنے والی ایک چادر سے جو ان کے لباس کے لئے ناکافی تھی اپنا لباس کیسے بنایا۔ اور حضرت عمر فاروقؓ کو بتانا پڑا کہ ان کے بیٹے نے اپنے حصے کی چادر بھی انہیں دی تب ان کا لباس تیار ہوا۔ یہی عمران خان سے توشہ خانے میں موجود غیرملکی سربراہان حکومت و مملکت کی طرف سے دیئے گئے تحفوں کو اپنے ذاتی استعمال کے لئے لیتے ہیں اور سوال کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے توشہ خانے سے کتنے تحفے لئے۔ ان کی اصلی قیمت کیا تھی اور وزیراعظم نے ان کے لئے کتنی رقم ادا کی تو کابینہ ڈویژن ان سوالوں کا جواب دینے کے بجائے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب سامنے آنے سے پاکستان اور تحائف دینے والے ممالک کے تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکتی ہے لہٰذا ان کے جواب نہیں دیئے جا سکتے۔
بات اسی پر ختم نہیں ہوتی جیسا شروع میں نامور صحافی انصار عباسی کی قومی معاصر میں چھپنے والی رپورٹ کا حوالہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق حکومت سے یہ نہیں پوچھا گیا تھا کہ ”تحائف کس نے دیئے؟“ بلکہ حکومت نے خود ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے توڑمروڑ کر یہ بیان جمع کرایا کہ تحائف کے متعلق معلومات افشا کرنے سے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان ہو سکتا ہے۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق کابینہ ڈویژن سے یہ سوال یا سوالات پوچھے گئے تھے (1) وزیراعظم کو 18 اگست 2018سے 31 اکتوبر 2020 تک غیرملکی سربراہان حکومت اور سربراہان مملکت سے کتنے تحائف ملے؟ (2) ان کی مکمل تفصیل کیا ہے؟ (3) جتنے تحائف ملے ہیں ان میں سے وزیراعظم نے کتنے اپنے پاس رکھے ہیں (4) ان کی کل قیمت کیا بنتی ہے اور وزیراعظم نے ان کے لئے کتنی رقم قومی خزانے میں اور کس ہیڈآف اکاؤنٹ میں جمع کرائی ہے۔ کابینہ ڈویژن نے ان سوالوں کے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے اور یہ عذر پیش کیا ہے کہ معلومات ”خفیہ“ ہیں۔ یاد رہے کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے دور میں کچھ اسی طرح کے سوالوں کے جواب میں حکومت کی طرف سے معلومات ”خفیہ“ ہونے کا عذر پیش کیا گیا تو عمران خان سمیت ان کی پارٹی کے چھوٹے بڑے سبھی میاں محمد نوازشریف کے لتّے لینے اور انہیں بدعنوان قرار دینے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شور شرابہ کرتے رہے۔ اب شہباز گل جیسے حکومتی ترجمان ”خفیہ“ کے جواز کو سند بنا کر وزیراعظم عمران خان کے تحائف لینے کے معاملے کو خفیہ رکھنے پر بضد ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہوا خوب وہی جو تھا نا خوب کبھی!
وزیراعظم کے توشہ خانے سے تحائف لینے کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جناب عرفان صدیقی جو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تاریخ و قومی ورثہ کے چیئرمین بھی ہیں نے سینٹ سیکرٹریٹ میں سوال جمع کرایا ہے جو ان کے بقول بڑا سادہ سا ہے کہ یکم ستمبر 2018 ء سے 31 اگست 2021ء تک وفاقی حکومت کے توشہ خانے میں کس کس ملک سے کون کون سے تحائف آئے؟ ان کی کل تعداد کتنی ہے؟ ان میں سے کون کون سے تحائف وزیراعظم، وزراء، معاونین خصوصی اور اعلیٰ سرکاری حکام سمیت کن کن شخصیات نے کتنی کتنی مالیت میں خریدے، ریاست کو کتنی رقم موصول ہوئی اور کتنی رعایت دی گئی۔ دیکھتے ہیں عرفان صدیقی کو ان کے اس سادہ سے سوال کا جواب ملتا ہے یا اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے جو اس سے قبل ان کے ایک سوال کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔