حکومت نے چھوٹے طبقے کو ڈائریکٹ سبسڈی دینے کا اعلان کر دیا، یہ اعلان اس لیے بہت اہم ہے کہ ”ابھی دو سال باقی ہیں“ اور حکومت جانتی ہے کہ اگر ہم آخری دو سال میں بھی کچھ ڈلیور نہ کر سکے تو ”ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں“۔ راقم نے گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ عمران خان کے لیے الیکشن کمپین کرنے والے اور خان کو وزارت عظمیٰ تک لانے والوں نے بھی خان کو کہہ دیا ہے کہ اب ہم بھی تھک چکے، اگر مزید ”گڈ گورننس“ کا لالی پاپ دیا گیا تو حالات ہماری پہنچ سے دور ہو جائیں گے، مزید حکومت کا دفاع، حکومتی تجزیہ نگاروں اور حامیوں کے اختیار میں نہیں رہے گا۔ چند حکومتی ذرائع کے مطابق راقم کے گزشتہ کالم کو حکومتی ایوانوں میں ڈسکس کیا گیا جس پر یہ فیصلہ ہوا کہ سبسڈی نچلے طبقے تک دینے کا وقت آ گیا ہے ورنہ حالات کنٹرول سے باہر ہوتے جائیں گے، وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس اور دال، چینی، آٹا اور دیگر چیزوں کی پرائس کنٹرول پر کام یقینا خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سبسڈی دو سال رہے گی یا کچھ دن بعد دوبارہ معاملہ پہلے تین سال جیسا ہو جائے گا؟۔ گزشتہ کالم میں راقم نے انتہائی تند و تیز جملوں سے حکومتی ایوانوں میں بیٹھے پاکستانی قوم کے مسیحاؤں کو جگانے کی کوشش کی تھی جس پر عمومی طور پر یہ تاثر دیا گیا کہ راقم حکومتی دفاع چھوڑ کر اپوزیشن کی حمایت کر رہا ہے۔ اس بات کا ذکر بارہا ہو چکا کہ عمران خان اور عثمان بزدار کی ایمان داری سے ہم سب متاثر ہو چکے، ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان اور پنجاب میں ایسی قیادت موجود ہے کہ جو کبھی ترقی کے نام پر فنڈز ہڑپ نہیں کرے گی، ہمیں ایسی ایمان دار قیادت میسر آ چکی کہ جسے بیرون ملک جائیدادیں بنانے سے کوئی کنسرن نہیں بلکہ جس کا بنیادی مسئلہ ملکی ترقی اور معیشت کی مضبوطی ہے۔ اس وقت قومی پریشانی یہ ہے کہ جب قیادت اس قدر ایمان دار ہے تو ملک اس افراتفری کا شکار کیوں
ہے؟ ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب کیوں بڑھ رہا ہے؟ حالات دن بدن اس قدر تشویش ناک کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں عمران خان اور بزدار کی ناک کی نیچے سب ہو رہا ہو اور ہماری مذکورہ ایمان دار قیات بالکل انجان ہو یا انجان بنی ہوئی ہو؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہر پاکستانی کو پریشان کر رہے ہیں، سوالات واقعی پریشان کن ہیں۔
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، اگر حکومتِ وقت مہنگائی پر کنٹرول کر لے تو حالات بہت حد تک کنٹرول میں کیے جا سکتے ہیں۔ غریب آدمی یا دو وقت کے دیہاڑی دار مزدور کی زندگی اس قدر اجیرن ہو چکی ہے خودکشی کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے، حالات سے تنگ آ کر والدین اپنے بچوں کو فروخت کرنے لگے ہیں، اس کا واقعی سدباب ہونا چاہیے۔ ایمان دار قیادت کے لیے ”آخری دو سال کس قدر اہم ہیں“ اس کا اندازہ ایوانوں میں بیٹھے نام نہاد مسیحاؤں کو ہو چکا ہے۔ آپ کچھ دن پہلے کے اس واقعے سے اندازہ لگا لیں، کرکٹ ہمارا قومی کھیل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ہماری زندگیاں وابستہ ہیں مگر پھر بھی قومی تشخص کے لیے ہم نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو پاکستان بلایا، ایک غریب اور ترقی پذیر ملک میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کو کروڑوں روپے کی سکیورٹی دی گئی مگر وہ سکیورٹی رسک کا بہانہ بنا کر ملک سے ”فرار“ ہو جاتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کی خبر کے مطابق فائیو سٹار ہوٹل میں نیوزی لینڈ کی ٹیم، پانچ سو سے زائد سکیورٹی ملازمین اور پانچ سرکاری آفیسر نے سات دن میں ستائیس لاکھ کی بریانی کھائی، اگر نیوزی لینڈ کی قومی ٹیم نے سات دن کے قیام کے دوران 27 لاکھ کی بریانی کھائی ہے تو اس سے اندازہ لگائیں کہ باقی اخراجات کیسے ہوں گے۔ یہ مثال دینے کا مقصد کرکٹ کی مخالفت نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک طرف ہماری ملک معیشت اور دوسری طرف ہمارے یہ معاملات، کیا ہمیں قطعاً اندازہ نہیں کہ ہم کن دگرگوں حالات سے گزر رہے ہیں؟۔
آپ صرف پنجاب کو ہی دیکھ لیں، تین سال میں تقریباً سات آئی جی اور تین چیف سیکرٹری تبدیل ہو چکے اور ”گڈ گورننس“ کے نام پہ باقی دو سال میں اس سے کہیں زیادہ تبدیلیاں بھی متوقع ہیں، عمران خان نے کہاں کہ تبدیلیوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کام نہیں کر رہے تو یہ بات ٹھیک ہے کہ تبدیلیوں سے کسی کو کوئی ایشو نہیں مگر کیا یہ تبدیلیاں بھی کھوکھلی ثابت ہوں گی یا ان تبدیلیوں سے ملکی معیشت میں کوئی مثبت تبدیلی بھی آئے گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق عمران خان نے تمام وزراء کو یہ آخری وارننگ دی ہے کہ اگر کوئی وزیر ”حقیقی تبدیلی“ کے لیے کام نہیں کرے گا تو اسے گھر بھیج دیا جائے گا، خان صاحب گھر بھیجنے کا کہتے ہیں مگر بھیجتے نہیں۔ بس اتنی تبدیلی آتی ہے کہ اگر کوئی وزیر کسی ڈیپارٹمنٹ میں کام نہیں کر پایا تو اس سے وہ وزارت لے کر کسی نئی وزارت کا قلم دان سونپ دیا جاتا ہے، اس تبدیلی سے انہیں لگتا ہے کہ ملک میں خوش حالی آئے گی۔ وزیر اعظم ہر دوسرے روز کابینہ کا اجلاس بلاتے ہیں، مہنگائی کو ختم کرنے اور گڈ گورننس کا درس دیتے ہیں مگر نتیجہ ہمیشہ سے صفر رہا ہے۔ دوا سے لے اشیائے خور و نوش تک، غریب عوام کی رسائی سے باہر ہیں۔ ایسے میں پاکستانی قوم کو محض تبدیلی کے نعروں میں الجھائے رکھنا اور وزیروں کو محض تقریروں پہ لگائے رکھنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ اگرچہ اپوزیشن کا کام ہی حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرنا ہے مگر مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد بالکل درست ہے کیونکہ اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ گزشتہ ادوار میں اگرچہ کرپشن آسمان کو چھو رہی تھی، گزشتہ ادوار میں اگرچہ مافیا آج سے کہیں زیادہ مضبوط تھا، گزشتہ ادوار میں اگرچہ ایمان دار قیادت میسر نہیں تھی مگر مہنگائی کی شرح معمول پر تھی، ہم سب کو دو وقت کی روٹی کے لیے اس قدر پریشان نہیں ہونا پڑتا تھا جیسے آج گھناؤنی صورت حال بن چکی ہے۔ اللہ کرے اس ملک پر بھی اچھا وقت آئے اور خدا کرے یہ ایمان دار قیادت حقیقی معنوں میں پاکستان کو ”ریاستِ مدینہ“ بنانے میں کامیاب ہو جائے۔آمین