جاوید رامش میرے پیارے دوست ہیں۔بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں۔اردو کے خوبصورت شاعر ہیں۔خالی شاعر ہونا ہی ان کی خوبی نہیں ہے۔جاوید رامش متنوع موضوعات پر بڑی آسان اور زود گو دسترس رکھتے ہیں۔شعر کہنا اور مشکل ترین قافیہ نبھانا ان کے لیے مشکل نہیں ہے۔مجھے وہ اس لیے بھی یاد رہتے ہیں کہ ان کا تخلص ”رامشں“مجھے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے اور میں رانجھا رانجھا کردی نی آپے رانجھا ہوئی والی کیفیت کے درپے ہو جاتا ہے یا پھر میں اکثر میں نہیں رہتا وہ ہو جاتا ہوں والی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔اگر یہ دونوں کیفیات نہ ہوں تو جاوید رامش میرے اردگرد رہتے ہیں اور میں کوبکو رسوا ہونے سے بچ جاتا ہوں۔جاوید رامش کا تعلق تاریخی شہر دیپالپور سے ہے مگر آج کل بسلسلہ روز گار لاہور میں مقیم ہیں اور قوی امکان ہے کہ تادم آخر لاہور کو ہی اپنا مسکن بنائے رکھیں گے۔جاوید رامش کی دیگر خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حالات حاضرہ پر کڑی نظر ہیں اور کڑتے بھی ہیں یعنی انہیں غریب عوام کے دکھ بھی معلوم ہیں اور ان کے مسائل سے بھی آگاہ ہیں۔ان کی نظر حکومتی بوالعجبیوں پر بھی ہے اور حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔جاوید رامش حکومتی کارکردگی سے بھی نالاں ہیں اور اداروں کی غیر یقینی صورت حال سے بھی نامطمئن ہیں یعنی موصوف ایک حساس انسان ہے اور وسیع و عریض ملک میں پھیلے ہوئے معاشی دکھ کو بھی اپنا دکھ ہی تصور کرتے ہیں۔وہ اجتماعی بھوک کو انفرادی کے سانچے میں ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ عام آدمی کی محرومی کو بھی اپنی محرومی ہی گردانتے ہیں۔ انہی کا ایک شعر جو اپنے اندر پوری قوم کا نوحہ لیے ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
گداگروں میں گِنا کر سفید پوشوں کو
جو گوشوارے کبھی قوم کے بنایا کر
جاوید رامش اکثر اوقات مجھ سے ملکی حالات پر گفتگو کا سلسلہ بڑھاتے رہتے ہیں اور کھلے عام اپنی محب الوطنی کا ثبوت دیتے ہیں۔آج انہوں نے مجھے بہت دکھی دل کے ساتھ ایک تحریر بھیجی جو ہماری چوہتر سالہ تاریخ کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے۔آئیے قارئین! اس بہترین اور خوبصورت تحریر سے اپنے آپ کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیجیے اور صداقت کے پرت کھولیے۔ایک دن ایک حکمران محل میں بیٹھا تھا جب اس نے محل کے باہر ایک سیب فروش کو آواز لگاتے ہوئے سنا:
”سیب خریدیں! سیب!“
حاکم نے باہر دیکھا کہ ایک دیہاتی آدمی اپنے گدھے پر سیب لادے بازار جارہا ہے۔
حکمران نے سیب کی خواہش کی اور اپنے وزیر سے کہا:”خزانے سے 5 سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک سیب لاؤ“۔
وزیر نے خزانے سے 5 سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا:”یہ 4 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں“۔
معاون وزیر نے محل کے منتظم کو بلایا اور کہا:”سونے کے یہ 3 سکے لیں اور ایک سیب لائیں“۔
محل کے منتظم نے محل کے چوکیداری منتظم کو بلایا اور کہا:”یہ 2 سونے کے سکے لیں اور ایک سیب لائیں“۔
چوکیداری کے منتظم نے گیٹ سپاہی کو بلایا اور کہا:”یہ 1 سونے کا سکہ لے لو اور ایک سیب لاؤ“۔
سپاہی سیب والے کے پیچھے گیا اور اسے گریبان سے پکڑ کر کہا:”دیہاتی انسان! تم اتنا شور کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں پتا کہ یہ مملکت کے بادشاہ کا محل ہے اور تم نے دل دہلا دینے والی آوازوں سے بادشاہ کی نیند میں خلل ڈالا ہے اب مجھے حکم ہے کہ تجھ کو قید کر دوں“۔
سیب فروش محل کے سپاہیوں کے قدموں میں گر گیا اور کہا:”میں نے غلطی کی جناب!اس گدھے کا بوجھ میری محنت کے ایک سال کا نتیجہ ہے، یہ لے لو، لیکن مجھے قید کرنے سے معاف رکھو!سپاہی نے سیب لیے اور آدھے اپنے پاس رکھے اور باقی اپنے منتظم افسر کو دے دیئے۔اور اس نے اس میں سے آدھے رکھے اور آدھے اوپر کے افسر کو دے دیئے اور کہا: یہ 1 سونے کے سکے والے سیب ہیں“۔
افسر نے ان سیبوں کا آدھا حصہ محل کے منتظم کو دیا، اس نے کہا:”ان سیبوں کی قیمت 2 سونے کے سکے ہیں“۔
محل کے منتظم نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور آدھے اسسٹنٹ وزیر کو دیے اور کہا:”ان سیبوں کی قیمت 3 سونے کے سکے ہیں“۔
اسسٹنٹ وزیر نے آدھے سیب اٹھائے اور وزیر کے پاس گیا اور کہا:”ان سیبوں کی قیمت 4 سونے کے سکے ہیں“۔
وزیر نے آدھے سیب اپنے لیے رکھے اور اس طرح صرف 5سیب لے کر حکمران کے پاس گیااور کہا:”یہ 5 سیب ہیں جن کی مالیت 5 سونے کے سکے ہیں“۔
حاکم نے اپنے آپ سوچا کہ اس کے دور حکومت میں لوگ واقعی امیر اور خوشحال ہیں، کسان نے پانچ سیب پانچ سونے کے سکوں کے عوض فروخت کیے۔ہر سونے کے سکے کے لیے ایک سیب۔
اور لوگ ایک سونے کے سکے کے عوض ایک سیب خریدتے ہیں۔ یعنی وہ امیر ہیں۔
اس لیے بہتر ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے اور محل کے خزانے کو بھرا جائے۔
اور پھر عوام میں غربت بڑھتی گئی۔موجودہ ملکی صورت حال اس تحریر کا خوبصورت عکس ہے۔بقول مرزا اسد اللہ خاں غالب
ہوئے مر کے ہم جو رسوا،ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا