کابل: پاکستانی سفیر منصور علی خان کی جانب سے انکشاف کیا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) اور افغانستان کی مالی حالت بہتر بنانے کیلئے دیگر طریقوں پر طالبان قیادت سے بات چیت کا دور ہوا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں افغانستان میں تعینات پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ افغانستان کیساتھ معاشی روابط کا فروغ طالبان قیادت کیساتھ بات چیت کا اہم عنصر ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ ناصرف پڑوسی ممالک جن میں وسطی ایشیا کے ملک، چین اور ایران شامل ہیں بلکہ افغانستان کیساتھ معاشی واقتصادی رابطوں کے فروغ میں بھی گہری دلچسپی لے رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کے نمائندوں نے طالبان قیادت سے اس سلسلے میں اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا محور افغانستان کی معاشی ترقی اور سیکیورٹی ایشوز تھے۔
منصور علی خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اثاثے کو منجمد کرنے سے اس کی معیشت اور تجارت پر بہت برا اثر پڑا ہے، اس وقت وہاں ڈالروں میں لین دین نہیں ہو پا رہا، پاکستان کی کوشش ہے کہ ان پابندیوں میں نرمی لائی جائے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا ابھی مرحلہ نہیں آیا کیونکہ ہم عالمی برادری کا حصہ ہیں۔
خیال رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) عظیم ترین منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مرکزی پراجیکٹ ہے۔ اس کے تحت پاکستان میں ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کے منصوبے بنائے گا، جس کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی شکل میں ہے۔
دوسری جانب عالمی فوجداری عدالت نئے کہا ہے کہ مبینہ امریکی جرائم پر نہیں بلکہ داعش اور طالبان کی افغان سرزمین پر کارروائیوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اس اہم معاملے پر بات کرتے ہوئے عالمی عدالت کے نئے پراسیکیوٹر کریم خان نے تمام ججوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے معاملات کی عدالتی تحقیقات دوبارہ شروع کریں جو افغانستان سے جڑی ہیں۔