لاہور:عبوری ضمانت خارج ہونے پر شہباز شریف کو نیب نے لاہور ہائیکورٹ سے حراست میں لے لیا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم ن کے صدر میاں شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر نیب ٹیم نے حراست میں لے لیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر گرفتار کرلیا گیا۔جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بنچ نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت پر تفصیلی دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا۔درخواست میں چیئرمین نیب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق نیب نے شہباز شریف کیلئے حوالات خالی کرا دی،شہباز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے نیب ٹھوکر نیاز بیگ آفس جیل میں بند کیا جائے گا جبکہ صدر ن لیگ کو لاہور ہائی کورٹ سے سخت سکیورٹی حصار میں نیب آفس منتقل کیا جائے گا۔
نیب کی طرف سے سپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری جبکہ میاں شہباز شریف اپنے وکلاء امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اپنے دلائل دیتے ہوئے میاں شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں زیر کفالت کے لفظ کی بڑی اچھی تشریح کی ہے۔ نیب کو دستیاب دستاویزات کے تحت شہباز شریف کے خاندان کے افراد کو ان کے زیر کفالت نہیں کہا جا سکتا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ریفرنس کی ٹیکس ریٹرن کے مطابق نصرت شہباز 2004ء سے، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز 1996ء سے جبکہ جویریہ علی اور رابعہ عمران 2007ء سے ٹیکس فائلر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں تھے جن تاریخوں سے ان کے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرتے اور چھ ماہ بعد بری ہوتا ہوں تو ریاست کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے۔ عدالت نے میرے موکل کو طلب کیا اور وہ پیش ہو گئے، پھر گرفتاری کا کیا جواز ہے؟
خیال رہے کہ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ 1972ء میں بطور تاجر کاروبار کا آغاز کیا اور ایگری کلچر، شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم کردار ادا کیا، سماج کی بھلائی کیلئے 1988ء میں سیاست میں قدم رکھا، نیب نے بد نیتی کی بنیاد پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے۔
شہباز شریف نے درخواست میں مزید موقف اپنایا کہ موجودہ حکومت کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نیب نے انکوائری شروع کی ہے، انکوائری میں نیب کی جانب سے لگائے گئے الزامات عمومی نوعیت کے ہیں، 2018ء میں اسی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اس دوران بھی نیب کیساتھ بھر پور تعاون کیا تھا، 2018ء میں گرفتاری کے دوران نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک بھی ثبوت سامنے نہیں رکھا، نیب ایسے کیس میں اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتا جس میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو، تواتر سے تمام اثاثے ڈکلیئر کرتا آ رہا ہوں، منی لانڈرنگ کے الزامات بھی بالکل بے بنیاد ہیں.
نیب انکوائری کے دوران اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتا، نیب انکوائری دستاویزی نوعیت کی ہے اور تمام دستاویزات پہلے سے ہی نیب کے پاس موجود ہیں۔شہباز شریف نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب کے پاس زیر التواء انکوائری میں گرفتار کئے جانے کا خدشہ ہے، عبوری ضمانت منظور کی جائے ۔تاہم عدالت نے شہباز شریف کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا جس کے بعد نیب نے سابق وزیر اعلیٰ کو کمرہ عدالت سے حراست میں لے لیا ۔
ڈی جی نیب لاہور نے چیئرمین نیب کو گرفتاری سے متعلق آگاہ کر دیا ہے،چیئرمین نیب کو منی لانڈرنگ کیس کی تفصیلات سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا ہے۔شہباز شریف سے ہونے والی تفتیش اور کیس کے شواہد کی تفصیلات بھی چیئرین نیب کو فراہم کی گئیں جبکہ ذرائع کے مطابق شہباز شریف سے تفتیش کے لیے نیب کی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔