لاہور:ہائیکورٹ میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہبازشریف کی منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت شروع ہوگئی ہے۔ عدالت نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں آج تک توسیع کر رکھی ہے۔
جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ شہباز شریف کی عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔ درخواست میں چیئرمین نیب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
نیب کی طرف سے سپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری جبکہ میاں شہباز شریف اپنے وکلاء امجد پرویز اور اعظم نذیر تارڑ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اپنے دلائل دیتے ہوئے میاں شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں زیر کفالت کے لفظ کی بڑی اچھی تشریح کی ہے۔ نیب کو دستیاب دستاویزات کے تحت شہباز شریف کے خاندان کے افراد کو ان کے زیر کفالت نہیں کہا جا سکتا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ریفرنس کی ٹیکس ریٹرن کے مطابق نصرت 2004ء سے، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز 1996ء سے جبکہ جویریہ علی اور رابعہ عمران 2007ء سے ٹیکس فائلر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے بچے ان کے زیر کفالت نہیں تھے جن تاریخوں سے ان کے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
انہوں نے عدالت کو اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرتے اور چھ ماہ بعد بری ہوتا ہوں تو ریاست کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے۔ عدالت نے میرے موکل کو طلب کیا اور وہ پیش ہو گئے، پھر گرفتاری کا کیا جواز ہے؟
خیال رہے کہ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ 1972ء میں بطور تاجر کاروبار کا آغاز کیا اور ایگری کلچر، شوگر اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اہم کردار ادا کیا، سماج کی بھلائی کیلئے 1988ء میں سیاست میں قدم رکھا، نیب نے بد نیتی کی بنیاد پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنایا ہے۔
شہباز شریف نے درخواست میں مزید موقف اپنایا کہ موجودہ حکومت کے سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نیب نے انکوائری شروع کی ہے، انکوائری میں نیب کی جانب سے لگائے گئے الزامات عمومی نوعیت کے ہیں، 2018ء میں اسی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اس دوران بھی نیب کیساتھ بھر پور تعاون کیا تھا، 2018ء میں گرفتاری کے دوران نیب نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک بھی ثبوت سامنے نہیں رکھا، نیب ایسے کیس میں اپنے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتا جس میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو، تواتر سے تمام اثاثے ڈکلیئر کرتا آ رہا ہوں، منی لانڈرنگ کے الزامات بھی بالکل بے بنیاد ہیں.
نیب انکوائری کے دوران اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتا، نیب انکوائری دستاویزی نوعیت کی ہے اور تمام دستاویزات پہلے سے ہی نیب کے پاس موجود ہیں۔شہباز شریف نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب کے پاس زیر التواء انکوائری میں گرفتار کئے جانے کا خدشہ ہے، عبوری ضمانت منظور کی جائے۔