لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے لانگ مارچ سے قبل پی ٹی آئی کا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں فوری اور شفاف انتخابات کرائے جائیں۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو فتح کرنے نکل رہے ہیں اور نہ ہی ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ تحریک انصاف کو حکومت واپس کی جائے اور عمران خان کو وزیر بنایا جائے۔
اسد عمر نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں فوری اور شفاف الیکشن کرائے جائیں کیونکہ اس وقت ملک میں معاشی، سماجی اور سیاسی بحران نظر آ رہا ہے اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماءکا کہنا تھا کہ آئین پاکستان ہمیں سال کے 365 دن روزانہ جلسے کرنے کی اجازت دیتا ہے، ہم نے 4 نومبر جمعہ کیلئے دھرنے اور جلسوں کا سلسلہ شروع کرنے کی درخواست دی ہے جبکہ ہمارا چارٹر آف ڈیمانڈ صرف اور صرف الیکشن ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بڑی دھمکیاں دیں، ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی ڈر نہیں رہا اور رانا ثناءاللہ کہہ رہے ہیں مجھ سے تو کوئی ڈرتا نہیں، میں نے بڑی مونچھ بھی رکھی، تاؤ بھی دئیے لیکن پھر بھی لوگ ڈر نہیں رہے۔
اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پرسوں کہا گیا کہ شیخ رشید لانگ مارچ میں شریک نہیں ہوں گے، اور آج تھوڑی دیر قبل جن ایم پی ایز کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ دیں گے، تینوں نے اس کی تردید کر دی اور کہا ہے کہ تحریک انصاف چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی کو صرف وہ طبقہ چھوڑ سکتا ہے جس نے مستقبل میں سیاست نہیں کرنی، جس نے سیاسی خودکشی کرنی ہے وہ عمران خان کو چھوڑے گا، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کون چھوڑے گا، یا پھر ریٹ بہت ہائی ہو گا جو ایک علیحدہ بات ہے۔
ان کا کہنا تھا وزیراعظم کے سوشل میڈیا کے فوکل پرسن احمد جواد مستعفی ہو گئے ہیں، ابھی مسلم لیگ (ن) سے مزید استعفے آئیں گے، پی ٹی آئی سے نہیں، پوری پارٹی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے اور لوگ جڑ رہے ہیں۔
رہنما تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی پارٹی کی پریس کانفرنس کا جواب تو دیدیا جاتا ہے لیکن اگر ایک ادارہ پریس کانفرنس کرے تو اس حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ ان کو کیا جواب دیا جائے، کیونکہ ان کے ساتھ بعد میں بھی آپ کو کام کرنا ہوتا ہے، یہ کانفرنس ہونی ہی نہیں چاہیے تھی، اس سب کا مطلب یہی ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ حکومت ان کا دفاع کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔