مسلم لیگ ن کے دبنگ لیڈر میاں جاوید لطیف نے اعتراف کرلیا ہے کہ ان کی حکومت بے اختیار ہے۔ وہ نہ تو عمران خان کو گرفتار کرسکتی ہے اور نہ ہی علی وزیر کو رہا کرسکتی ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خود وفاقی وزیر ہونے کے باوجود آج تک بے محکمہ کیوں ہیں؟ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ رونا رونے سے کہیں بہتر ہوتا کہ خاموش رہا جاتا ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ پارٹی ایسے اقدامات کررہی ہے جس سے سب کو نظر آرہا ہے کہ جمہوریت، آئین کی بالا دستی اور میرٹ کے متعلق اپنے ہی نعروں کی نفی کی جارہی ہے۔ تازہ واقعہ سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تعیناتی کے معاملے پر دو ایسے جونیئر ججوں کی سفارش کرنا ہے جن کے ناموں کی مخالفت سپریم جوڈیشل کمیشن کے پچھلے اجلاس میں کی گئی۔ ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور کمیشن کے ارکان سپریم کورٹ کے سینئر جج اس موقف کے حامی تھے کہ نئے ججوں کی تقرریوں میں سنیارٹی کا اصول ہر صورت ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس طارق مسعود نے اس حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خطوط بھی ارسال کیے۔ اچانک اطلاعات آئیں کہ جوڈیشل کمیشن میں موجود دو حکومتی ارکان وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے یو ٹرن لیتے ہوئے اپنے ووٹ چیف جسٹس کی جانب سے نامزد کیے جانے والے ناموں کے حق میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یقینی طور پر اس بات کا فیصلہ مسلم لیگ ن کی ہائی کمانڈ کی سطح پر کیا گیا تھا اس کے باوجود خود پارٹی کے اندر سے شدید ردعمل آیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو استعفا دینا پڑ گیا۔ اب جو بھی جواز پیش کیے جائیں یہ طے ہوگیا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں لانے سے متعلق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی پالیسی کی توثیق کردی ہے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن اگر آنے والے دنوں میں اعلیٰ عدلیہ کے کسی دیانتدار اور دبنگ جج کے بارے میں حکومتی سطح پر کوئی منفی کارروائی ہوئی تو کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔سیاسی جماعتوں پر قیادت نے آمریت قائم کررکھی ہے کہ جیسے چاہیں فیصلے کریں کسی کو اختلاف کرنے کا حق نہیں۔ ان سطور میں کئی بار کہا جاچکا ہے کہ ملک میں جاری افراتفری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ نیا پاکستان کے معماروں نے پراجیکٹ کی نوعیت بدلی مگر پورا منصوبہ ترک نہیں کیا۔اب جاوید لطیف کے بیان کو ہی دیکھ لیں وہ تصدیق کررہے ہیں کہ ہم تو
عمران خان کو جیل میں ڈالنا اور علی وزیر کو باہر لانا چاہتے ہیں مگر اس کی اجازت نہیں مل رہی۔ دوسری جانب دیکھیں تو عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں جتنی کشیدگی چل رہی ہے اسکی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بعض حلقوں کا یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ پر کوئی دباؤ ہے زمینی حقائق کے سراسر منافی ہے۔ ایک ایک واقعہ دہرائے جانے کی ضرورت نہیں، صرف اتنا جائزہ لے لیں کہ ملک میں ہونے والی جن سرگرمیوں کو مقتدر حلقوں سے منسوب کیا جاتا ہے وہ ختم یا کم ہوگئی ہیں؟ جب سارے معاملات معمول کے مطابق چل رہے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک متحرک سیاسی جماعت کی صورت میں قائم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ دیگر تمام سیاسی جماعتیں مکمل فرمانبرداری کا مظاہرہ کرنے کے باوجود مشکوک ہیں۔ آئینی طریق کار کے مطابق اقتدار سے بے دخل کئے جانے پر عمران خان کو ایک منٹ کے لیے صبر نہیں آرہا۔ لیکن یہ اندازہ بھی سو فیصد غلط ہے کہ سابق وزیر اعظم کی ہر طرح کی حرکتیں برداشت کرنے کا سلسلہ لامحدود مدت تک جاری رہے گا۔ جو ریڈ لائن ہمیں نظر آرہی ہے شاید مقتدر حلقوں کے نزدیک وہ آخری حد نہیں۔توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نااہلی محض ایک جھٹکا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے متوقع فیصلے پر احتجاج کرنے کی پوری تیاری کررکھی تھی مگر وہ کوئی موثر سرگرمیاں دکھانے میں ناکام رہی بلکہ سٹریٹ پاور کے دعووں کے متعلق الٹا منفی تاثر چھوڑا۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اس دوران بظاہر سیاست چھوڑ کر معیشت اور سفارتی معاملات پر توجہ دے رہی ہے۔ یقینی طور پر اس کے کچھ نہ کچھ مثبت اثرات بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس تمام عرصے میں ایک بات نوٹ کی گئی کہ کوئی بھی عمران خان کے مطالبات پر توجہ دینے پر تیار نہیں۔ اسی دوران کینیا میں پولیس کی فائرنگ سے اینکر ارشد شریف کے جاں بحق ہونے کے واقعہ نے شاید انہیں یہ موقع فراہم کیاوہ سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں پر دباؤ ڈال کر مطالبات منوانے کی کوشش کریں۔یہ الگ بات ہے کہ اس کیس میں بھی زیادہ تر انگلیاں خود پی ٹی آئی کی قیادت پر اٹھ رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد سنسنی خیز انکشافات سامنے آئیں گے۔ شاید یہی حالات تھے کہ جب عمران خان کو محسوس ہوا کہ ان کے پاس فیس سیونگ کے امکانات بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ اسی لیے اچانک لانگ مارچ کا اعلان کردیا گیا۔ یہ تو واضح ہوچکا کہ حکومت عمران خان کو لفٹ کرانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ پھر اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا حکومتی حلقے بھی یہی چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی لانگ مارچ کا اعلان کرکے اپنی تمام توانائیاں احتجاجی تحریک میں جھونک دے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کرکے آخری کارڈ کھیل دیا ہے۔ مارچ ناکام ہوا تو عمران خان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ احتجاجی تحریک کی کامیابی کا امکان اس لیے کم ہے کہ جتھوں کے ذریعے حکومت تبدیل کرنے کا سلسلہ ایک بار شروع ہوگیا تو پھر یہ سلسلہ رک نہیں سکتا۔ سیاسی جماعتوں کے کہیں زیادہ منظم دینی جماعتوں کے پر جوش کارکن تو چاہیں گے کہ ایسا ہی ہو تاکہ وہ اپنے لاکھوں حامیوں کو اسلام آباد لاکر خود حکومت سنبھال لیں۔ بہر حال اندیشہ ہائے دور دراز ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران خونریزی ہوگئی تو ملک سے بچی کھچی جمہوریت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ جن مقاصد کے لیے عمران خان لانگ مارچ کر رہے ہیں ان کا پورا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔