ایک صحا فی ہو نے کے ناتے میرا یہ مانناہے کہ صحا فیوں اور دانشوروں کے درمیان اختلاف ِ رائے ہو نا نہ صر ف آ زادیِ صحا فت، بلکہ بالغ پروفیشنل ازم کی علامت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی کو ئی امر ما نع نہیں کہ جہا ں کو ئی اختلا فِ رائے نہ ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہاں کو ئی سا زش پل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے یہ تسلیم کر نے میں کو ئی عا ر نہیں کہ میرا ارشدشر یف سے کچھ مقا ما ت پہ نظر یا تی اختلا فِ رائے ہو اکر تا تھا۔مگر انتہا ئی دکھتے دل سے یہ ضبط تحر یر میں لا رہا ہوں کہ اس کا قتل ایک بہیما نہ حر کت اور دہشت گردی ہے،جس کی تحقیقا ت لازم ہیں۔پاک فوج کی جانب سے بھی حکومت سے اس افسوسناک واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ تحقیقات ان حالات ہی کی نہیں ہونی چاہئیں کہ وہاں پر کیا ہوا بلکہ ان حالات کی بھی ہونی چاہئیں کہ ارشد شریف کو پاکستان سے کیوں جانا پڑا کس نے ان کو جانے پہ مجبور کیااور کیسے گئے اور اس دوران کہاں پر رہے۔‘
بلا شبہ پا ک فو ج کا یہ بیا ن مو جو دہ حکو مت سے اس سلسلے میں ایک سنجید ہ قدم اٹھا نے کا متقا ضی ہے۔ ایک ذہین صحافی سماج کی آنکھ اور کان ہوتا ہے اور یوں اس قیمتی زندگی کا اچانک اور اس طرح بے دردی سے ختم ہوجانا بلاشبہ رنج والم کا باعث ہے۔ ارشد شریف کی موت پر یہی احساس پاکستانی عوام کا ہے۔ ان کا قتل جن حالات میں ہوا پاکستانی عوام اس بارے حقائق سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ جو کچھ کینیا کی پولیس کی جانب سے مختلف بیانات میں کہا گیا ہے اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ بھیانک واقعہ پولیس کی غلطی کا نتیجہ تھا؛ تاہم کینیا ہی کے صحافتی حلقے وقوعے کے حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد جو سوال اٹھا رہے ہیں اس سے پولیس کے بیان پر شبہات ظاہر ہوتے ہیں اور کینیا کی پولیس کی پیشہ ورانہ اہلیت اور قوانین کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈان شبہات کو تقویت دیتا ہے؛ چنانچہ ان شبہات کے ازالے کے لیے اس وقوعے کی جامع تفتیش ضروری ہے کہ وہاں پر کیا ہوا بلکہ ان حالات کی بھی ہونی چاہئیں کہ ارشد شریف کو پاکستان سے کیوں جانا پڑا کس نے ان کو جانے پہ مجبور کیااور کیسے گئے اور اس دوران کہاں پر رہے۔یہ سبھی نکات یقینا اس کیس کے حوالے سے بہت اہم ہوں گے اور جامع تحقیقات ہی سے اصل صورتحال سامنے آ سکتی ہے جو اس دلخراش واقعے کا سبب بنی۔ ایک ذہین اور معروف صحافی کی موت جہاں باعثِ رنج و الم ہے وہیں اس وقوعے پر قیاس آرائیوں اور الزام تراشی کا سلسلہ بھی نہایت افسوسناک ہیں۔ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات کی آڑ میں الزام تراشی اور من گھڑت الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کا نتیجہ سماجی انتشار اور بے یقینی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے میں سنجیدگی اور ذمہ داری کا ثبوت دیا جائے۔سوشل میڈیا اس جدید دور میں پروپیگنڈا کا سب سے موثر ہتھیار ہے سیاسی رہنماؤں سے یہ ڈھکا چھپا نہیں؛ چنانچہ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ ان حالات میں ایسا بیانیہ اختیار کیا جائے جو پروپیگنڈے کاتوڑ کرے اور سماج میں اعتماد حوصلہ اور ہم آہنگی کے فروغ کا سبب بنے۔سیاسی قائدین کی باتوں کا اپنا وزن ہوتا ہے۔ اگر مخالف دھڑے کے لوگوں پہ یہ بات اثر نہ بھی کرے مگر اپنے طرف داروں کیلئے تو یقینا یہ اثر رکھتی ہے اس لیے جب کسی جماعت کی قیادت کی جانب سے کوئی قیاس آرائی یا بے بنیاد بات کی جاتی ہے تو سماج کے لیے اس کا اثر زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔
اب آ تے ہیں کا لم کے عنوان کے دوسرے حصے کی جانب۔ تو قا رئین کرم عرض کچھ یوں ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان پر مالیاتی اصلاحات لانے پر زور دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریزر نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہوا، ایسی بارشوں کی مثال پہلے نہیں ملتی، دنیا کو پاکستان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم پاکستان کو بھی مالیاتی اصلاحات کرنا ہوں گی، طویل مدت سرمایہ کاری کے لیے بھی ریفارمز اہم ہیں، جب کہ دوسری جانب چند روز قبل ایشیائی ترقیاتی بینک کی اپ ڈیٹ میں کہا گیا تھا کہ مالیاتی ایڈ جسٹمنٹ اور مالیاتی تناؤ سے مالی سال 2023میں گھریلو طلب میں کمی آنے کا امکان ہے جو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے صنعت کی پیداوار کوکم کرے گا۔ ملک کے معاشی منظر نامے کو درپیش خدشات کی وجہ سیلاب کے علاوہ مہنگائی کی شرح بلند ہونا اور خوراک اور توانائی کی عالمی قیمتوں میں امکان سے زیادہ
اضافہ ہے۔ بلاشبہ ورلڈ بینک کے نائب صدر نے صائب خیالات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستانی معیشت میں اصلاحات لانے کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ہمیں پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانا پڑیں گی۔ قلیل المدتی پالیسی میں ہمیں اپنا مالی خسارہ کم کرنا پڑے گا، جس کے لیے حکومت کے حجم اور اس کے اخراجات کو کم کرنا ہوگا جب کہ جو سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں اور سرکار ان کو اربوں روپے دے رہی ہے۔ ان کی یا تو نجکاری کرنا ہوگی یا انھیں منافع بخش بنانا ہوگا، اگر پاکستان کو مختلف شعبوں میں بہتر درجہ بندی حاصل کرنا ہے تو معیشت کی تنظیم نو کرنا ہوگی خصوصاً ٹیکسوں اور توانائی کے شعبے میں، علم پر مبنی معیشت اپنانا ہوگی۔ اب جب کہ 75 برس بعد ہم میثاق معیشت کی بات کررہے ہیں تو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا راستہ اختیار کر کے ہم ترقی کی طرف تیز رفتار سفر طے
کرسکتے ہیں۔ معاشی اور مالیاتی نظام کی خرابیوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، یہ امر افسوسناک ہے کہ وطن عزیز میں بیشتر اہم معاشی و مالیاتی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے مفاد میں یا ان کے دباؤ پر بنائی جاتی ہیں خواہ اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑے یا قانون کو توڑنا پڑے۔ ان نقصانات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات و انسانی وسائل کی ترقی کے لیے کم رقوم مختص کی جاتی ہیں اور ملکی و بیرونی قرضوں پر بے تحاشا انحصار کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں طاقتور طبقوں بشمول ٹیکس چوری کرنے والوں، قومی دولت لوٹنے والوں، بینکوں سے اپنے قرضے غلط طریقوں سے معاف کرانے والوں، پاکستان سے لوٹ کر یا ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہوئی رقوم سے ملک کے اندر اثاثے بنانے یا ملک سے باہر اثاثے منتقل کرنے والوں کے مفادات کا تحفظ حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی ایک روپیہ قومی خزانے میں جمع کرائے بغیر ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینا ممکن ہے۔ پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے پروگرام کے اندر رہا ہے جب کہ لمبے عرصے سے ہر حکومت لوٹی ہوئی اور ناجائز دولت کو قانونی تحفظ دینے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اجرا کو اپنا فرض منصبی سمجھتی رہی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے اپ ڈیٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ گزشتہ کئی برس سے ہمارے ملک میں جو پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں، اُن کا ہدف ملک کے عوام سے زیادہ چند گنے چنے سرمایہ داروں کا مفاد رہا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں زیادہ ترآبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ حکومتوں نے زراعت سے مجرمانہ غفلت کی مسلسل پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس لیے کہ زراعت سے سرمایہ دار کو فوری کوئی فائدہ نہیں ہے۔ روزگار کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ چھوٹے کاروبار (retail) ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری، بڑے کارپوریٹ اداروں کے داخلے اور آن لائن کاروبار کے فروغ کی پالیسیوں نے اس شعبے میں بھی روزگار کے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔ تیسرا بڑا سیکٹر مینوفیکچرنگ کا ہے جو مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ یہ سیکٹر بھی بری طرح زوال کا شکار ہے۔ ملک کے بڑے کارپوریٹ اداروں کو زیادہ فائدہ سروس سیکٹر اور حکومت کے بڑے بڑے انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں نظر آتا ہے، جن کے کنٹریکٹ سرکار سے ساز باز کرکے وہ آسانی سے حاصل کرلیتے ہیں۔ حکومت بھی انھی شعبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ان شعبوں میں بڑی تعداد میں عام لوگوں کو روزگار نہیں ملتا۔ اس سے سرمایہ داروں کو ضرور فائدہ ہوتا ہے، جی ڈی پی بھی بڑھتا ہے، لیکن روزگار پیدا نہیں ہوتا۔ بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں حکومت کی توجہ ان شعبوں (labour intensive sectors) پر ہونی چاہیے جو زیادہ روزگار پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں غیر رسمی معیشت (informale conomy)کا بڑا رول ہے۔ ملک کی معیشت کا بڑا حصہ اسی پر مبنی ہے اور یہی بڑے پیمانہ پر روزگار بھی پیدا کرتا ہے۔ غیر رسمی معیشت کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے معیشت عالمی مالیاتی بازاروں، عالمی کساد بازاری وغیرہ کے اثراتِ بد سے محفوظ رہتی ہے، لیکن بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے غیر رسمی زمرے کو کمزور کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف غربت اور بے روزگاری بڑھی اور دوسری طرف پوری معیشت عالمی سرمایہ داروں کے چنگل میں چلی گئی اور عالمی مالیات کے اتار چڑھاؤ سے تیزی سے متاثر ہونے لگی۔ انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں معیشت کی ترقی کے باوجود امیری غریبی کا فرق بڑھتا جارہا ہے۔