پاکستان واپسی سے پہلے کینیڈا میں سکاربرو ،ٹاون سینٹر میں اپنی فیملی کے ساتھ خریداری کرتے وقت ایپل سٹور میں ایک نوجوان بھارتی کینیڈین سیلز بوائے نے مجھے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فتح پر مبارکباد دی تو بہت اچھا لگا ،اس کے ساتھ میں نے مزید گفتگو کی تو وہ بھی میری طرح پاکستان اور بھارت کی دوستی کے حق میں نکلا ،مجھے اس موقع پر اپنے امتیاز عالم یاد آ گئے جن کی قیادت میں ہم نے سافما کے پلیٹ فارم سے سائوتھ ایشین ممالک میں تعلق اور دوستی کی کوششوں کا آغاز صحافیوں سے کیا تھا۔
ٹی20ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستان کی بھارت کیخلاف تاریخی فتح کو اگر ٹیم سپرٹ اور اتحاد و یکجہتی کا نام دیا جائے تو قطعی غلط نہ ہو گا،اس میچ میں دونوں ملکوں کے عوام ٹیم کیساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے ،پاکستان اور بھارت میں کھیلوں کے مقابلوں کو ہمیشہ سے ہی دو ممالک میں ایک بڑا مقابلہ گردانا جاتا ہے،ایسا صرف پاکستان اور بھارت میں ہی نہیں ہوتا بلکہ برطانیہ ، آسٹریلیا ،نیوزی لینڈاور کئی دوسرے ممالک کے درمیان کھیل کے مقابلے بھی ایسا ہی نظارہ پیش کرتے ہیں،تاہم ان کے عوام دشمنی کی حد تک نہیں جاتے جبکہ ہمارے مخالف بھارت کا میڈیا اور خود کھلاڑی بھی جنگی ماحول پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جو کہ ایک غیر صحت مند روایت ہے،کھیل کا لطف حاصل کیا جائے جیت کی خوشی بھی منائیں مگر کھیل کے میدان سے ذہنوں میں نفرت نہیں دوستی بڑھنی چاہئے۔
بابر اعظم اور محمد رضوان کی افتتاحی جوڑی نے جیت میں اہم کردار ادا کیا مگر شاہین آفریدی نے بھارتی اننگ کے آغاز میں ہی دو اہم کھلاڑیوں کو پویلین بھیج کر میچ میں فتح کی بنیاد رکھ دی تھی،بابر اوررضوان کی کار کردگی قابل تعریف و توصیف سہی مگر شاہین آفریدی کو نظر انداز کرنا زیادتی ہو گی،در حقیقت ٹیم کے ہر کھلاڑی نے جیت میں اہم کردار ادا کیا اس لئے فتح کو کسی سے منسوب کرنے کے بجائے پوری ٹیم بلکہ کوچز کو بھی خراج پیش کیا جانا چاہئے،سیاسی اختلافات کو اگر پس پشت ڈال دیں جیسا کہ اس کامیابی پر مریم نواز نے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور صرف عمران خان کی مخالفت میں قومی تقاضوں اور حب الوطنی کو بھی نظر انداز کر دیا،درحقیقت جیت کی بنیاد وزیر اعظم عمران خان نے ایک پیشہ ور کرکٹر رمیز راجہ کو چیئرمین کرکٹ بورڈ لگا کر رکھ دی تھی،ماضی میں اس اہم عہدوں پر سیاسی تعیناتیاں کر کے کرکٹ کا بیڑہ غرق کر دیا گیا،وہ جن کو کرکٹ کی الف بے سے آشنائی نہ تھی وہ کرکٹ میں تقسیم اور سیاست کو فروغ دیکر اپنے عہدے بچاتے رہے،مگر وزیر اعظم عمران خان چونکہ خود ایک جارح کرکٹر رہے اور بھارت کیخلاف بھارتی میدانوں میں ان کی فتح کی بازگشت آج بھی کرکٹ کی دنیا میں سنائی دیتی ہے انہی کے دور کپتانی میں پاکستان کرکٹ کا ورلڈ چمپئین بھی بنا،اس لئے انہوں نے کرکٹ بورڈ کو سیاست سے پاک کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر کو کرکٹ بورڈ کی سربراہی سونپی،اس جیت میں مصباح الحق کا کردار بھی بطور کوچ ناقال فراموش ہے اس لئے وہ بھی تعریف کے مستحق ہیں۔
20اوور کے میچ میں پاکستانی افتتاحی جوڑی نے 12سے زیادہ ورلڈ ریکار قائم کئے،جو کسی اعزاز سے کم نہیں،بابر اور رضوان نے آغازسے انجام تک کریز پر کھڑے رہنے کا ریکارڈ بنایا،اوپننگ بلے بازوں کے طور پر 152کا تاریخی سکور کیا،مقررہ اوورز کے خاتمے سے قبل ہدف عبور کرنے کا اعزاز بھی ان کے نام رہا،روائتی حریف کو دس وکٹوں سے شکست بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے،میں آف دی میچ شاہین آفریدی کی طرف سے روہیت شرما، راہول،ویرات کوہلی کی اہم وکٹیں حاصل کرنا میچ کی اہم بات تھی،رضوان کے 55گیندوں پر79رنز اور بابر کے 52گیندوں پر68رنز بھی جیت کیلئے اہم ترین تھے،کھیل کے میدان میں شاہین بھارتی کھلاڑیوں کو چت کر رہے تھے تو سوشل میڈیا پر پاک بھارت عوام میں یدھ جاری تھا،ایک دوسرے پر لفظوں کے وار جاری تھے،طنز مزاح،جارحانہ پوسٹس نے عجیب ماحول پیدا کیا ہوا تھا،میں تو اس کامزہ لے رہا تھا۔
ویرات کوہلی کی قیادت والی بھارتی ٹیم پر آئی سی سی کا کوئی بھی کپ نہ جیتنے کا ٹیگ لگ چکا ہے،اب ورلڈ کپ میچوں میں پاکستان سے ہارنے والی پہلی ٹیم کے کپتان پر ان کی اداکارہ بیوی انوشکا شرما کا رد عمل اس بارے میں نہیں معلوم مگر پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں جب بھی میدان میں اترتی ہیں دونوں ملکوں کے عوام ان کی حوصلہ افزائی کیلئے میدان میں موجود ہوتے ہیںماضی میں2011ء میں موہالی سٹیڈیم میں ایک روزہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بھی ایسا ہی تھا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تھا،اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کی دعوت پر میچ دیکھنے بھارت میں تھے،2007ء کےT20کے فائنل میچ میں ٹکراؤ بھی سب کو یاد تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بھارتی گراؤنڈ پر وہ میچ بھی کرکٹ کی تاریخ میں بھلایا نہیں جا سکتا جب بھارت نے راجستھان میں فوجی مشقوں کے بہانے بھاری فوج سرحد پر لگا دی تھی ایسے میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں میدان میں نبرد آزما ہونے والی تھیں،جنرل ضیاء الحق پاکستان کے صدر تھے جبکہ راجیو گاندھی بھارت میںوزیر اعظم، جنرل ضیاء الحق میچ دیکھنے بھارت جا پہنچے،راجیو بھی آئے،اس موقع پر ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کے کان میں کچھ کہا،جس سے ان کے چہرے کے تاثرات بری طرح بگڑ گئے،واقفان حال کہتے ہیں ضیاء ا لحق نے راجیو سے کہا اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ایٹم بم چلا دے گا،نتیجے میں راجیو کی میچ میں دلچسپی ختم ہو گئی اور انہوں واپس جاتے ہی سب سے پہلے سرحد سے فوج واپس بلانے کا حکم جاری کیا۔گزشتہ میچ کے اختتام پر کوہلی کی رضوان کو مبارک دیتے ہوئے تصویر چھپی ہے جو اچھی تھی اس میں بھی ایک پیغام تھا ،جو مجھے امتیاز عالم صاحب نے ہی بھیجا ہے۔
اک دوجے دیاں گینداں پچھے نسدے رہن
رب کرے ایہ مکھڑے انج ای ہسدے رہن
مک جاون ایہ رولے جنگ تے نفرت دے
دونویں پاسے لوکی ہسدے وسدے رہن
کھیل کو کھیل کے تناظر میں کھیل ہی رہنے دیا جائے تو صحت مند ماحول جنم لیتا ہے، کشیدگی، جارحیت،مخاصمت،دشمنی میں کمی آتی ہے۔بھارتی حکمرانوں کی طرف سے پاکستان میں کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی،لیکن اس روایت کو اب ختم ہونا چاہئے ،ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہوتی ہے
ادب،موسیقی،فن اور کھیل کے ذریعے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لا کر نفرت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے،اس کیلئے اصل کردار دونوں ملکوں کی حکو مت کو ادا کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو اقتدار میںآتے ہی خیر سگالی کا پیغام دیا مگر جواب میں سرد مہری حصے آئی،اب بھی کھیلوں کے فروغ،عوامی سطح پر وفود کے تبادلہ سے دشمنی کی آگ کو سرد کیا جا سکتا ہے۔