اپنے متنازعہ افکارو حرکات سے سے شہرت پانے والے امریکی سیاستدان کینتھ گوف نے ایک بار کہا تھا کہ ’’میری سیاسی تربیت کے دوران مجھے نفسیاتی سیاست سکھائی گئی، یہ ایک ایسا فن ہے جس میں آپ برین واشنگ اور ذہنی صحت متاثر کر کے عوام کے دماغوں پر قبضہ کر سکتے ہیں‘‘۔
پہلے ذرا سعودی عرب کی طرف سے ملنے تین ارب ڈالر اور موخر ادائیگی کی سہولت پر ملنے والے ایک ارب 20کروڑ ڈالر مالیت کے تیل پر بات کر لیتے ہیں، ہمیشہ کی طرف تفصیل میں جائے بغیر اور اس سارے معاملے کو سمجھے بغیر یاران انصاف نے لڈیا ں ڈالنی شروع کر دی ہیں، عمران خان کی ٹیم کے سب سے قابل اور ایماندار یعنی ان کے کیمرہ مین اور ڈیزائنر نے لیڈرانہ تصاویر کو شاندار انداز میں ڈیزائن کر کے قوم کی طرف سے شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں تحریک انصاف کے حامیوں نے اس کارنامے پر عمران خان کا شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا ہے اور ہینڈسم پھولے نہیں سما رہے ۔ وہ جو کہا کرتے تھے کہ ’’ ایسا وزیر اعظم نہیں بنیں گے جو ملکوں ملکوں بھیک مانگتا پھرے بلکہ وہ باوقار وزیر اعظم بنوں گا‘‘ اور وہی ماضی کے عمران خان جو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خود کشی کو ترجیح دیتے تھے اب ایسی شرائط پر ملکی معیشت کی رکتی سانسیں بحال کرنے کیلئے ملکوں ملکوں گھوم رہیں کیونکہ شاید ان کو اپنے ماضی کے قول و قرار یاد ہی نہیں رہے یا وہ پاکستانی عوام کے درد میں ملکوں ملکوں پیسے مانگ پر اپنی ذاتی انا کو نیلام کر رہے ہیں۔
عمران خان سعودی عرب پہنچے جہاں پر انہوں نے خاتون اول کی بیٹی کی شادی میں شرکت کی اور ساتھ ہی سعودی عرب سے یہ رقم منظور کروانے میں کامیابی حاصل کی، لڈیاں ڈالنے والوں کو کچھ دیر تھم جانا چاہیے، تعریفوں کے ڈونگرے برسانے والوں کو ایک ساعت کیلئے سکون کرنا چاہیے اور عمران خان کی خوبصورتی کی تعریف کرنے والوں کو ایک لحظہ کیلئے سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی اس رقم کی حقیقت جان لینی چاہیے۔ درحقیقت پاکستان کی معیشت ، جی ڈی پی گروتھ ریٹ کی کہانیاں سنانے والی تحریک انصاف کی حکومت معاشی پالیسیاں کو بہتر کرنا تو ایک طرف انہیں پہلی جیسی حالت میں برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ ڈالر ، پٹرولیم مصنوعات، اشیائے خور د و نوش کی قیمتیں پاکستان کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں، ایسے موقع پر معاشی ماہرین کی پیش گوئی تھی کہ یہی صورتحال رہی تو ڈالر 200اور پٹرول 150روپے فی لیٹر تک جانے کا خدشہ تھا، تو وزیر اعظم پہنچے دوست عرب ملک۔ ہمیں اس سے قبل بھی سعود ی عرب انہی حالات سے نکلنے کیلئے دو ارب ڈالر کی رقم سود پر دے چکا ہے جس میں ایک ارب ڈالر پاکستان نے سود سمیت واپس کیا تھا جبکہ ایک ارب ڈالر ابھی تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا ہے جبکہ اب مزید تین ارب ڈالر کی رقم پاکستان کو دی جا رہی ہے، یاران انصافیان کو نوید ہو کہ یہ رقم پاکستان کو سود پر دی گئی ہے، اس رقم سے پاکستان کوئی خریداری نہیں کر سکے گا بلکہ یہ رقم سٹیٹ بینک آف پاکستان میں پڑی رہے گی تاکہ مارکیٹ کو یہ اعتماد رہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر ایک خاص حد سے کم نہیں ہو ں گے۔ ڈالر کی اڑان کو کنٹرول کیا جائے گا اور اس میں تھوڑی سی بہتری آئے گی ، اس رقم کو آپ قرضہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ اسے اپنی مرضی سے خرچ نہیں کر سکتے ، نہ ہی اس رقم کو آپ امداد کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ رقم آپ کو سود سمیت واپس کرنا پڑے گی، یہ دراصل دم توڑتی ہوئی معیشت کیلئے وینٹی لیٹر کا کام کرے گی اور اس دوران دیگر معاشی اعضا کو فعال کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ معاشی مشینری کام کر سکے، اس سے قبل جو دو ارب ڈالر سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو ملے تھے ان پر 3.2فیصد کی شرح سود طے ہوئی تھی، اس شرح سود کی تصدیق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی دہرائی جب ان کا کہنا تھا کہ اس رقم کی شرائط بالکل ویسی ہی ہیں جیسی پہلے تھیں، یعنی اس رقم پر بھی 3.2فیصد سود دینا پڑے گا۔
دوست عرب ملک کی طرف سے پاکستان کو ایک ارب 20کروڑ ڈالر کا تیل بھی دیا جا رہا ہے جو موخر ا دائیگی کی بنیاد پر دیا جائے گا یعنی اس رقم کی ادائیگی پاکستان بعد میں کرے گا، اس کیلئے کیا وقت مقرر کیا گیا اس بارے میں تاحال معلوم نہیں ہو سکا ہے لیکن پاکستان کی طرف سے یہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو سہارا دینے کی ایک مصنوعی کوشش کی ہے، یعنی اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آنیوالے دنوں میں معمولی سی کمی کر کے سیاسی شعبدہ بازی کی جائیگی اور حکومتی مشیر ڈالر کی قدر میں معمولی کمی کے ساتھ ہی دوبارہ پاکستانی عوام کو حکومت کی معاشی پالیسی کی کامیابی کا راگ الاپ کر بے وقوف بنانے کی کامیاب کوشش کریں گے۔
قرین قیاس ہے کہ تبدیلی سرکار ایسے ہی پانچ سال مکمل کر لے گی، سوشل میڈیا پر ترقی کا طوفان بپا رہے گا جبکہ ، غریب کیلئے زمین مسلسل تنگ ہوتی رہے گی۔معیشت کو سود پر رقم لے کر مستحکم رکھنے کی کوشش کرنے والے تاحال اپنی پالیسیوں سے رجوع کرنے پر تیار ہیں اور نہ ہی یہ تسلیم کرنے پر تیار ہیں کہ انہیں ٹیم ناقص ملی ہو یا وہ خود نااہل ہو ں لیکن وہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔مگر اس ساری صورتحال میں گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر کی صورتحال قابل رحم ہے، جب پی ٹی آئی کی حکومت سلیکٹ کی گئی تو سوشل میڈیا پر میں نے ایک ٹویٹ دیکھی، ایک صاحب جو بیرون ملک مقیم تھے انہوں نے لکھا تھاکہ ’’ میں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہی رقم پاکستان میں اپنے خاندان کو بھیجی جو کافی عرصے سے بھیج رہا ہوں لیکن ڈالر کی قیمت ایک بار پھر بڑھنے سے وہ ڈیڑھ لاکھ کی بجائے پونے دو لاکھ پاکستانی روپوں کی صورت میں میرے اہل خانہ نے وصول کی، اگر خان صاحب کی حکومت رہی تو انشاء اللہ میں بہت جلد اپنے گھر والوں کو ڈھائی سے تین لاکھ روپے ماہانہ بھجوانا شروع کر دوںگا‘‘۔ شاید یہ ٹویٹ باقر رضا کی نظر سے بھی گزری ہو گی جو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہہ ڈالا کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے بیرون ملک پاکستانیوں کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ پاکستان میں اپنے اہل خانہ کو زیادہ پیسے بھجوانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سوچ کو 21توپوں کی سلامی دینے کے علاوہ کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے لیکن دوست عرب ملک کی طرف سے پاکستان کو سود پر رقم دئیے جانے کے بعد باقر رضا ضرور پریشان ہوں گے کہ اب بیرون ملک پاکستانی کیسے اپنے اہلخانہ کو زیادہ رقم بھجوا سکیں گے۔اظہر عنایتی نے شاید اسی موقع کیلئے کہا تھا
وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے