سرد جنگ، ذہنی تناؤ، کھیل ختم اور کھیل بگاڑنے کے لیے خرچ کیے گئے کروڑوں روپے ہضم، کپتان نے ایک تماشا لگایا اس میں خوب خوب رنگ بھرے کئی کرتب دکھائے لیکن تماشا ختم ہوگیا۔ ”تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے، دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا“ گزشتہ پورا ہفتہ ہیجان اور ذہنی انتشار میں گزرا۔ لمحہ لمحہ پوری قوم پر بھاری، چند لوگوں کے اظہار نا پسندیدگی کے باوجود جمہوریت بچ گئی۔ اللہ کا شکر کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری 23 اور 24 نومبر کی درمیانی رات جی ایچ کیو سے وزارت دفاع اور وہاں سے کچھ ہی دیر بعد وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئی۔ وزیر اعظم سمری پہنچنے سے پہلے ہی ملاقاتیں کر رہے تھے سمری آنے میں غیر معمولی تاخیر سے افواہیں پھیل رہی تھیں چہ میگوئیاں کا لا متناہی سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔ اسلام آباد ہی میں نہیں پورے ملک میں سیاسی زندگی تھم سی گئی تھی۔ انتظار، انتظار تمام رات قیامت کا انتظار کیا۔ نظریں ٹی وی چینلوں پر جمی تھیں۔ سمری آنے کی خبریں 19 نومبر کو بھی چلی تھیں۔ مگر غلط ثابت ہوئیں۔ وزیر وفاع خواجہ آصف نے 21 نومبر کو سمری آنے کا وعدہ کیا۔ 23 نومبر کا دن بھی گزر گیا۔ دن بھر افواہیں زوروں پر رہیں تاہم 10 اور 11 بجے کے درمیان بریکنگ نیوز چلی کہ سمری آگئی یعنی خوشحالی کا پیغام یعنی استحکام کی نوید یعنی جمہوریت کی بقا کی امید، وزیرا عظم نے 23 نومبر کی صبح اٹھتے ہی وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا۔ اہم تعیناتیوں پر مشاورت کی اور اتفاق رائے سے تعیناتیوں کا اعلان کردیا۔ توقعات کے عین مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو جو 6 کے پینل میں سینئر موسٹ تھے آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنادیا گیا۔ دونوں جنرلوں کی تعیناتی کی فائل بلا تاخیر صدر کو بجھوا دی گئی صدر کو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں تھی آنکھیں بند کر کے دستخط کرنے تھے لیکن صدر کے اپنے چیئرمین دو دن پہلے کہہ چکے تھے کہ ان کا صدر سے رابطہ ہے آئین اور قانون کے مطابق کھیلیں گے۔ صدر نے وزیر اعظم کا طیارہ پکڑا، بھاگم بھاگ لاہور پہنچے، زمان پارک میں کپتان سے 48 منٹ مشاورت کی کیا مشاورت ہوئی ”کراما کاتبین راہم خبر نیست“ بعد ازاں گھر کی دیواروں نے جو کہانیاں سنائیں ان کے مطابق مبینہ طور پر صدر نے ہمت و حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ انکار کی گنجائش نہیں۔ انکار پر استعفیٰ کو ترجیح دوں گا۔ کپتان حیران، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ اس سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج کے مسئلے پر وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے بھی استعفیٰ کی دھمکی دی تھی یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ صدر واپس پلٹے اور ایوان صدر پہنچ کر دونوں فائلوں پر دستخط کردیے شنید ہے کہ ایک اعلیٰ افسر جو فائلیں لے کر گئے تھے دستخط لے کر ہی واپس آئے۔ فائلیں وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے پر شادیانے بج اٹھے۔ کش مکش بے یقینی اور ہیجان خیزی بالآخر ختم ہوئی۔ میدان حکومت کے ہاتھ رہا۔ آئینی تقاضے پورے ہوئے کپتان خوامخواہ کھیل رچا رہے تھے۔ نواز شریف کا فیصلہ تھا کہ عین غین نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے عین کو ترجیح دی گئی حکومت کے سرکردہ رہنماؤں، وزیر اعظم، آصف زرداری اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچالیا۔ کفر ٹوٹو خدا خدا کر کے کمان کی تبدیلی بخیر و خوبی انجام پائے گی۔ 25 نومبر کو نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا یعنی تعیناتیوں پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی۔ 27 نومبر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس اسٹاف جنر ساحر شمشاد مرزا نے عہدہ سنبھال لیا۔ انشاء اللہ جنرل حافظ سید عاصم منیر کل یعنی 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی آئندہ تین سال کے لیے آرمی کی کمان سنبھال لیں گے۔ دونوں جنرلوں نے صدر مملکت اور وزیر اعظم سے خیر سگالی ملاقاتیں کیں۔ دونوں جنرل پروفیشنل، ملکی دفاع کے لیے اپنے حلف پر قائم ملک کے وقار پر حرف نہیں آنے دیں گے فوج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کرنل کے عہدے پر پروموشن کے بعد 38 سال کی عمر میں حافظ خلیل صاحب سے دو سال میں قرآن حفظ کیا۔ ان کے دو بھائی ہاشم منیر اور قاسم منیر بھی حافظ قرآن تمام بھائیوں کے سینے قرآن کے نور سے منور، والد محترم راولپنڈی میں اسکول کے پرنسپل کردار اظہر من الشمس تعیناتی میں گوناگوں خطرات کا اظہار کیا جاتا رہا انہیں ختم کرنے میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار تاریخی رہا۔ انہوں نے بہت پہلے اپنے آپ اور فوج کے پورے ادارے کو اے پولیٹیکل کرنے کا اعلان کردیا تھا کیا کیا باتیں سننی پڑیں جن نادانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا انہوں نے کن کن القابات سے نوازا۔ مگر بقول جنرل باجوہ انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں تحمل سے کام لیا۔
کپتان ہیرا پھیری سے باز نہ آئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل انہوں نے کتنے پینترے بدلے، ہر قدم پر چیلنج کرتے رہے لیکن جب بازی پلٹتے دیکھی تو ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا کہ میرا کیا تعلق جو میرٹ پر ہو اسے بنادیں۔ مجھے کون سے اپنے کیسز ختم کرانے ہیں یا انتخابات جیتنے کے لیے ان کی مدد درکار ہے۔ جبکہ 25 نومبر کو ان کے دست راست اسد عمر نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں اسٹیبلشمنٹ کو یہ کہہ کر پھر مداخلت کی دعوت دی کہ آرمی چیف اپنی رائے دیں اور حکومت کو جلد انتخابات کے لیے کہیں دوسری طرف کپتان کے دوسرے بازو فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت الیکشن کا اعلان کرے اداروں کو سیاسی فیصلوں کا حصہ نہ بنایا جائے۔ دونوں کے متضاد بیانات جب ادارے نے سیاست سے الگ رہنے کا اصولی فیصلہ کرلیا تو اسے آوازیں دے دے کر بلانے کو کیا کہا جائے۔ کپتان کے سات بیانیے دفن ایک سیانے تجزیہ کار نے تو سارے یوٹرن گن وا دیے کہ ایک ایک بیانیہ ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔عمران خان اب کیا کریں گے؟ مرضی کا آرمی چیف نہیں بنا تو پنڈی پر لشکر جرار کے ساتھ حملہ آور ہونے کا فائدہ لشکر جرار پیدل آئے گا کپتان ہیلی کاپٹر پر پہنچیں گے۔ ملک میں دو قانون دو رویے عوام کے لیے الگ لیڈر کے لیے جدا اسے کیا کہیے کہا تھا جلسہ کریں گے مگر افغانوں کی طرح خیمہ بستی بسا کر بیٹھ گئے۔ سیکڑوں کی تعداد میں واش روم بنا دیے گئے۔ حلوہ پوری کا ناشتہ، مرغن کھانے، لشکر جرار کو واش رومز کی ضرورت تو پڑے گی۔ لشکری سرد راتوں میں خیموں میں پڑے گیت گاتے رہے۔ سانوں ہفتہ نوں پنڈی بلا کے تے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔ ہینڈلرز پریشان ہیں استعفیٰ کی سوچ رہے ہیں۔ امجد اسلام امجد نے کہا تھا۔ ”وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں دل بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا“ کیسے بھلا دیں۔ بے چارگی کے عالم میں مشورہ دیا گیا کہ آرمی چیف والا معاملہ تو ہاتھ سے نکل گیا لیکن ہاتھ ملنے کی بجائے حکومت سے دو دو ہاتھ کرلیں۔ عوام کا سمندر پنڈی لا کر الیکشن کی تاریخ لے کر اٹھو۔ مارچ کی تاریخ مل گئی تو پوبارہ، ورنہ اپنے نصیب، حکومت نے واضح کردیا کہ لانگ مارچ اور چند ہزار لوگوں کے ”سمندر“ کے ساتھ شہر اقتدار پر حملہ کر کے کچھ حاصل نہیں ہوگا سڑکوں پر نکل کر کچھ نہیں ملے گا۔ کسی ایمپائر کی انگلی نہیں اٹھے گی بلکہ پوری قوم کی انگلیاں اٹھنے لگیں گی۔ فوج اب تاریخ نہیں دے گی۔ جو سودا لینا ہے وہ سیاسی دکان سے ملے گا۔ کرکٹ میچ کرکٹ گراؤنڈ ہی میں کھیلا جاتا ہے۔ ہاکی گراؤنڈ میں کھیلنا دانش مندی نہیں۔ جن سے فیض یاب ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے پوری نہیں ہوئیں، بقول غالب ”توقع جن سے تھی کچھ خستگی کی داد پانے کی، وہم سے بھی زیادہ خستہئ تیر ستم نکلے“ پس منظر کو بھول جائیں، لمحہ موجود پر نظر رکھیں۔ ایک اور یوٹرن لیں اور شاہراہ دستور پر موجود پارلیمنٹ کی پر شکوہ عمارت میں یہ شعر پڑھتے ہوئے واپس آجائیں کہ ”شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہیں آپ، محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں“ سیاسی میدان میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق سیاستدانوں کی طرح سیاست کریں قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے بھی وزیر اعظم کے برابر ہی پروٹوکول ملے گا۔ انا کو تسکین ملتی رہے گی۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حکومت سے مذاکرات کریں اور تاریخ لے لیں، تاہم یہ سب کچھ جلد کرلیں۔ کیسز پیچھا کر رہے ہیں دو تین میں تو نا اہلی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ کچھ ہوگیا تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔ پارٹی جن لوگوں کے ہاتھ میں آئے گی وہ جوتیوں میں دال بانٹیں گے آئین کی شدبد پارلیمنٹ میں موجودرہ کر کر ہی ہوسکتی ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلہ پر آئین سے آپ کی بے خبری اظہر من الشمس ہوگئی۔ ساڑھے 3 سال بابر اعوان اور فواد چوہدری راستہ دکھاتے رہے۔ اب آئین کی طرف لوٹ آئیں۔
کھیل ختم ہوگیا؟ سیانے کہتے ہیں کہ رسی جل گئی بل نہیں گیا۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق جنہوں نے کپتان کی سیاست پر پندرہ بیس سوال اٹھا دیے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی گھٹی میں جمہوریت نہیں ہے لیڈر سمیت رہنماؤں نے مشرف دور میں آنکھ کھولی، اسی لیے ابھی تک پنڈی کی طرف منہ کر کے المدد المدد پکار رہے ہیں۔ 50 لاکھ یا عوام کا سمندر گھروں سے نہیں نکلا، آئین کے تحت جو فیصلے ہونے تھے ہوچکے الیکشن کے سلسلہ میں حکومت نے کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کیسے اقرار کرلیں معیشت کی تباہی کی موجودہ صورتحال اس کی اجازت نہیں دیتی، لانگ مارچ اور بیانیوں سے نجات ملے تو ملک میں استحکام آئے معیشت سنبھلے، مہنگائی کی شرح ان ہی ہنگامہ آرائیوں سے بڑھی ہے اسٹیٹ بینک کے مطابق مہنگائی کی شرح 21 سے 22 فیصد تک رہے گی۔ یہی حالات رہے تو اور بڑھے گی۔ الیکشن کیسے ہوں گے دو تہائی اکثریت کیسے ملے گی۔ کپتان ساری شرائط ختم کر کے آخری یوٹرن لیں اور پارلیمنٹ کی سپر میسی تسلیم کرتے ہوئے سنجیدہ سیاستدانوں کی طرح جمہوریت کے فروغ اور مستقبل کی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کریں اور ملک کو استحکام کی جانب بڑھنے دیں لیکن لگتا ہے کپتان گیم ختم ہونے نہیں دیں گے ان کے پاس لانگ مارچ، جلسے جلوس اور دھرنے آخری ہتھیار ہیں وہ استعمال کرتے رہیں گے گیم از ناٹ اوور، کپتان کا کہنا ہے کہ ”میں نے تو حکومت میں آنا ہی ہے اس کے لیے مہم کی بھی ضرورت نہیں ہے“ یہ بات ہے تو مہم جوئی کیوں کی جا رہی ہے۔