وقت بدل گیا،کئی زمانے بیت گئے، حکمران بدل گئے مگرآج تک نہ بدل سکے تو بس پاکستان کی غریب عوام کے حالات نہ بدلے۔ پاکستان کی عوام کل بھی مصائب اور مسائل کی یلغار میں آہ و فغاں کرتے نظر آتے تھے اور آج بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ غرض یہ کہ عوام کہ مصائب کا سفر نہ تو کبھی کسی مقام پر رُکا اور نہ ہی کبھی کسی منزل پر تھما، جبکہ مصائب کی یلغار کی بنیادی وجہ مالی اور معاشی بدحالی ہے۔ پاکستانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرع پچھلے پچاس سال کی بلند ترین سطح 27.3فیصد تک پہنچ چکی ہے جب کے حکومتی نا اہلی اورمصنوعی مہنگائی کے باعث عوام کے لیے 43فیصد کی سطح پر ہے، بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی اگر معیار کو جانچا جائے تو لوکل مارکیٹ میں غیر معیاری اشیاء 60فیصدمہنگی دستیاب ہیں۔جس کا واضح مطلب ہے کے کم آمدنی والے افراد کے ذرائع آمدن نصف ہو گئے ہیں۔ شوگر مل مالکان کے ساتھ ہونے والے بے نتیجہ مذاکرات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کے آنے والے دنوں میں چینی عوام کی دسترس سے باہر ہو جائے گی۔قیمتوں میں اضافے کے باعث فصلوں کی تیاری پر آنے والے اخراجات دوگنا بڑھ جانے کے بعد مہنگائی وہ ریکارڈ بنائے گی کہ عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا عام آدمی کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ یہ کہنا کسی صورت بھی غلط نہیں کہ اب آنے والا ہر دن پاکستان کے سفید پوش طبقے کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا۔ بارشوں اور سیلاب کے باعث سرکاری گوداموں میں رکھی گئی لاکھوں ٹن گندم تباہ ہو چکی ہے۔ کوئی خاطر خواہ انتظامات نا ہونے کے باعث لائیو سٹاک ایک خوفناک منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔دو ہزار روپیہ کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا گوشت غریب عوام کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔ قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا اور کاروبار کا نا ہونا ایک نئے المیے کو جنم دے رہا ہے۔ سفید پوش
طبقے کی ماہانہ آمدن مہینے کی پندرہ تاریخ سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے، مہینے کے آخر تک جیب اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ زندگی بھاری لگنے لگتی ہے۔پیٹرول اور دیگر اشیائے ِ ضرویات کی آئے روز بڑھتی قیمتوں سے سفید پوش اور غریب لوگوں کے بجٹ اورزندگی پر کیا اورکتنا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ شاید ہی کسی کو ہو۔ یہاں آٹا بحران ختم ہوتا ہے تو گیس کا بحران شروع ہوجاتا ہے،گیس کا بحران سے نکلتے ہیں تو چینی اور پیٹرول کا بحران سر اٹھائے ملتا ہے۔ ویسے تو مہنگائی ایک بین ا لاقوامی مسئلہ ہے تقریباً دنیا کے سب ہی ملکوں میں ضروریات ِ زندگی کی قیمتوں میں روز بہ روزاضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ ایک فطری عمل بھی ہے کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس رفتار سے اضافہ چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہو ا ہے۔ غالباً سب ہی جانتے ہیں کے جس چیز کے طلب گار زیادہ ہو ں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا میں لوہے، کو ئلے اور پیٹرول وغیرہ کے ذخیرے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے پیش نظرجس تیزی سے کم ہو رہے ہیں اس تیزی سے نئے ذخیروں اور وسائل کی دریافت نہیں ہو سکتی۔ لیکن پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویشناک ہے۔گزشتہ چند سالوں سے یہاں مہنگائی کی شرع میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،بڑھتی مہنگائی کے ساتھ ساتھ یہاں پہلے ہی بے روز گاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔سوات کی عالی شان عمارتیں پانی میں تنکوں کی طرح بہہ گئیں،جو بچ گئیں انہیں سیلابی پانی شدید متاثر کر گیا،مری،ناران اور دیگر سیاحتی مقامات ویران پڑے ہیں۔ اب روز بہ روز اشیائے خور دو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہ راست اثران اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے۔باقی ماندہ کسر تیل، پیٹرول، پھلو ں،سبزیوں کی ہر دوسرے دن بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پوری کر دی ہے۔ پیٹرول اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹر آئے روز کرائے بڑھا دیتے ہیں۔ بجلی اور گیس کی صور تحال بھی پیٹرول اور تیل سے مختلف نہیں ہے۔ دن بہ دن نا قابل ِ بردا شت حد تک بڑھتی مہنگائی اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب یہاں کا عام انسان لقمہ خوراک کو ترس جائے گا۔ مہنگائی کی حالیہ لہر اور حکومتی اراکین کی خاموشی یقیناً قابل ِتشویش ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والا وقت شدید مہنگائی کی زد میں ہو گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرح کے قومی بحرانوں کے وقت ہمارے سیاست دان سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے، الٹا ایک دوسرے کو طعنے دینے اور نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشی کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کا مزید اندازہ کیجئے کہ کسی بھی مقام پر ہمارے سیاست دان یہ نہیں سوچ رہے کہ مہنگائی کا یہ طوفان کیسے بھی آیا،اس کا ذمہ دار چاہے کوئی بھی ہو مگر اس سب میں پس تو بیچاری غریب عوام رہی ہے۔ جس کا تعلق نہ تو کسی مل مافیہ سے ہے اور نہ ہی اقتدار میں بیٹھے کسی شاہا نِ وقت سے۔ انہیں تو بس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے جو اسے میسر نہیں۔اگر یہی حالات رہے تو وہ وقت دور نہیں جب پورا مڈل کلاس طبقہ غریب طبقے کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں چینی، آٹا، گھی، تعلیم اور ادویات سفید پوش طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ جب ماں باپ اپنے بچے کے لیے دودھ نا خرید سکیں اور اولاد اپنے والدین کا علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھے توسفید پوش اور غریب عوام کی تڑپ شاید ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر دیکھی جائے۔یہ طبقے آخر کب تک اپنی محدود آمدنی کے ساتھ زندگی کی لامحدود مشکلوں کو پا رکریں گے۔۔ ملک میں جاری حالیہ سیاسی بحران شدید مالی بحران کو جنم دے رہا ہے اگر وقت سے پہلے اسمبلیوں سے استعفے آگئے توروپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہمیں شدید مالی بحران میں دھکیل دے گا۔