گزشتہ دنوں ملک میں جاری بے یقینی کا خاتمہ ہوگیا ملک کے سیاست پر اثر انداز ہونے والا ایک غیر سیاسی معاملہ اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے جنرل عاصم منیر اگلے تین سال کے لئے ملک کے میں آرمی چیف مقرر کردیئے گئے ہیں وزیراعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا ہے اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو بھی جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا گیا ہے جنرل عاصم منیر 29نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر پاک فوج کی کمانڈ سنبھالیں گے وہ پاک فوج کے پہلے سربراہ ہیں جو اس سے پہلے آئی ایس آئی اور ایم آئی دونوں کے سربراہ رہ چکے ہیں ملک کے نئے آرمی چیف کا معاملہ کئی ہفتوں سے زیر بحث تھا چند ماہ پہلے سے ہی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان صاحب نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس حکومت کو نیا آرمی چیف نہیں لگانے دیں گے کسی بھی صورت عمران خان نے یہ کہہ کر قوم کو پہلے ہی اکسانا شروع کر دیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف جو بھی آرمی چیف لگائیں گے قوم اس کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گی اور نہ ہی قوم کو ان کی تعیناتی کو قبول کرنا چاہیے عمران خان بار بار جلسوں جلوسوں میں صحافیوں سے ملاقاتوں میں اس موقف کو دہراتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے کہ ملک میں فوری نئے انتخابات ہونے چاہیے اور نئی آنے والی حکومت کو ہی نیا آرمی چیف مقرر کرنا چاہیے اس کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دی جاسکتی تھی لیکن آہستہ آہستہ عمران خان اس بیانیے سے پیچھے ہٹتے چلے گئے اور پھر صحافیوں سے ملاقات میں یہ بھی کہا کہ مجھے صرف ایک نام پر اعتراض ہے کہ اس کو آرمی چیف نہیں لگانا چاہیے۔
دوسری جانب حکومت پر چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کے معاملے کا دباؤ بڑھتا رہا اور حکومت نے 18 نومبر کا انتظار کیا جب لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف ریٹائر ہوئے اور جنرل عاصم منیر سنیارٹی لسٹ میں نمبر ون پر آگئے وزیراعظم ہاؤس سے وزارت دفاع کے ذریعے جی ایچ کیو سے افسران کے نام طلب کئے 22 نومبر کو ایک نجی چینل سے خبر نشر ہوئی کہ حکومت کو جی ایچ کیو سے ناموں کی فہرست موصول ہوئی ہے پھر 23 نومبر کو شہباز شریف کے اتحادیوں سے مشاورت کی اور اگلے ہی دن میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی جس میں جنرل عاصم منیر کو سروس میں برقرار رکھنے کی منظوری دی اور پھر وزیر اعظم ہاوس سے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل ساحر شمشاد کو جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بنانے کی سمری صدر مملکت کو بھیجی گئی پھر اس وقت ایسا ہوا کہ پورے پاکستان کی نظریں ایوان صدر پر تھی کیونکہ یہ معاملہ بہت وقت سے چل رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ صدر مملکت آرمی چیف کی سمری کو روک سکتے ہیں اور وہ اس طرح جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں اور اس طرح وہ 27 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے مگر وفاقی کابینہ نے جنرل عاصم منیر کی سروس کو مشاورتی اجلاس میں برقرار رکھ کر ان کے امکانات کو بھی ختم کر دیا پھر صدر عارف علوی کی زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات ہوئی جس کے بعد فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اہم تعیناتیوں پر آج فیصلہ ہوگیا ہے شام کو صدر مملکت آگاہ کر دیں گے پھر آخر کا صدر مملکت نے دستخط کرکے جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا۔
یہ ایک ایسا معاملہ اپنے انجام کو پہنچا جو کہ غیر سیاسی تو ہے مگر اس پر بھرپور سیاست کی جارہی تھی اور کی جاتی رہی ہے 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہو کر پاک فوج کی ذمہ داریاں جنرل عاصم منیر کے سپرد کریں گے عمران خان یہ دعوی کرتے رہے کہ اس حکومت کو نہ تعیناتی کرنی چاہیے اور نہ وہ قابل قبول ہو گی لیکن اگر ماضی میں نظر ڈالیں تو جنرل راحیل شریف کو بھی نواز شریف نے جنرل لگایا تھا جن سے عمران خان کے بڑے اچھے تعلقات تھے اور جنرل باجوہ کو بھی نواز شریف نے لگایا تھا جن کو عمران خان نے توسیع بھی دی اور حکومت بچانے کے لیے بطور رشوت توسیع کی آفر بھی دی اور جنرل باجوہ کے دور میں ہی جے آئی ٹی کی ایک رپورٹ تھی جس میں نواز شریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قرار دیا گیا اور عمران خان فوج کو اس کا کریڈٹ دیتے رہے اور اب تمام کام ہو گئے ہیں پی ٹی آئی کا بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہے مگر اس سارے معاملے میں جیسی سیاست پی ٹی آئی نے کی ہے قابل افسوس ہے ایک سپہ سالار پر الزام ان کا تمام سپہ سالار وں پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے اگر معاملہ ختم ہوگیا ہے تو عمران خان کو چاہیے اپوزیشن میں بیٹھ کر کام کریں اور ایسے من گھڑت الزامات پاک فوج پر لگا کر عوام کو پاک فوج کے آگے کھڑا مت کریں جب آرمی چیف کا معاملہ چل رہا تھا اور عمران خان کے الزامات سے جتنا خوش بھارت دکھائی دیا جس کا کہنا تھا کہ جو کام ہم کرنا چاہتے تھے وہ عمران خان نے کر دیا اس وقت پاکستان بہت کمزور ہو گیا ہے ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں مگر بھارت یہ یاد رکھے کہ
”میری سرحد پہ پہرہ ہے ایمان کا
میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا“