ہمارے ’’بزرجمہر‘‘ کہتے ہیں کہ عوام باشعور ہو چکے۔ بجا! مگر بھوکے پیٹ کیسا شعور اور کہاں کا شعور؟۔ نظیر اکبرآبادی نے کہا
دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں
خود ناچتی ہیں اور نچاتی ہیں روٹیاں
یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے پھر بھی ہمارے رَہبر کہتے ہیں ’’گھبرانا نہیں‘‘۔ لیکن ہمارا آج کا موضوع روزافزوں مہنگائی نہیں کہ اِس پر ہزاروں کالم لکھے جا چکے اور لکھ جا رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ آج بھی عوام کو غلام ابنِ غلام سمجھتے ہیں۔یوں تو ہم رواجاََ آمریت کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں حقیقت مگر یہ کہ ’’جمہوری آمریت‘‘ اِس سے ہزار گُنا بدتر کیونکہ دَورِ آمریت میں تو آزادیٔ اظہار سلب کر لی جاتی ہے لیکن جب جمہوری قبا زیب تَن کیے حکمران دَورِ آمریت کے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگتے ہیں تو ووٹ کی دُرگت بنتے دیکھ کر جمہور کی بے چینی قابلِ دید ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہی بے چینی انقلاب میں ڈھل جاتی ہے، خونی انقلاب میں۔ آج ہم جس دَور سے گزر رہے ہیں اُسے کمترین الفاظ میں ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ کہہ گئے
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ یہ آزادی کی ہے نیلم پری
آج آئین کی عمل داری محض مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ہمارا آئین پارلیمنٹ کو آئین سازی کا حق تو ضرور دیتا ہے مگر اِس شرط کے ساتھ کہ آئین میں ایسی کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی جو پارلیمانی جمہوری نظام کی اَساس کے منافی ہو۔ سوال یہ کہ ہمارا آئین مگر ہے کہاں، وہ تو شاید لمبی تان کر سویا ہوا ہے۔ اِسی لیے تو پارلیمنٹ میں مَن مرضی کے بِل پاس کروائے جا رہے ہیں۔ اُدھر تلملاتی اپوزیشن یہ کہہ کر اپنی شکست تسلیم کرتی نظر آتی ہے ’’17 نومبر 2021ء پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے‘‘۔اِس لیے انتخابات ای وی ایم کے ذریعے ہوں یا پرانے طریقے سے، ووٹ کو پہلے عزت ملی نہ اب ملے گی۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اپنے کالم میں ثابت کیا کہ ای وی ایم اور الیکشن اصلاحات بِل کی منظوری غیرآئینی ہے۔ اُن کے مطابق یہ بِل آئین کے آرٹیکل 25 (جس میں حقوق کی بات کی گئی ہے) سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اپوزیشن سے مشاورت ضروری تھی جو نہیں کی گئی۔ اُن کے خیال میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 94 اور 103 کی ترامیم نے الیکشن کے سارے نظام کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت نے انتخابی فہرستوں کی تیاری کی دفعات 23 تا 44
حذف کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بجائے نادرا کو فہرستیں تیار کرنے کا حکم دیا ہے جو آئین کے آرٹیکلز 218,219 کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔ یہ آرٹیکل الیکشن کمیشن کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروانے کی ذمہ داری تفویض کرتے ہیں۔ جب الیکشن کمیشن کو یوں بے اختیار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو آزادانہ انتخابات کیسے ممکن ہوںگے؟۔ شنید ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ تو مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کے لیے تیار ہو گئی ہے۔ شاید حکومت کو احساس ہو گیا ہو کہ الیکشن کمیشن کے سامنے اُس کی دال گلنے والی نہیں اِس لیے مفاہمت ہی بہتر ہے لیکن حکمران اپوزیشن کو اب بھی اعتماد میں لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر ہمیں 1977ء کے انتخابات یاد آگئے جب ذوالفقارعلی بھٹو نے مَن مرضی کے انتخابات کروائے جنہیں پی این اے نے تسلیم کرنے کی بجائے احتجاج کی راہ اپنائی جس کا نتیجہ ضیائی مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا۔ اب بھی اگر اپوزیشن کے تحفظات دور کیے بغیر انتخابات کروائے گئے تو نتائج کو اپوزیشن ہرگز تسلیم نہیں کرے گی جس کا نتیجہ پھر ’’میرے عزیز ہم وطنوں!‘‘ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔
اپوزیشن تو ’’بڑھکوں‘‘ کے باوجود ای وی ایم کے معاملے پر سپریم کورٹ میں نہیں گئی البتہ سلیم اللہ خاں ایڈووکیٹ نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ میں ای وی ایم کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے جس میں وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔ اب یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ اُس کا کیا فیصلہ آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جسٹس صاحبان خوب جانتے ہیں کہ عدلیہ کی ساکھ داؤ پہ لگی ہے اور پاکستان کی عدلیہ دنیا کے نظامِ عدل کی فہرست میں 130میں سے 126 ویں نمبر پر پہنچ چکی ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے متواتر ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو نظامِ عدل پر سوالیہ نشان ہیں۔ پہلے جسٹس شوکت صدیقی نے ببانگِ دہل کہا کہ مَن مرضی کے فیصلے کروانے کے لیے عدلیہ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ پھر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے آئی جس میں اُس نے اقرار کیا کہ میاں نوازشریف کو دباؤ کے تحت 7 سال قید کی سزا سنائی۔ ارشد ملک کی اِس ویڈیو کا بہت چرچا ہوا۔ اِسی جرم کی بنا پر اُسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن حیرت ہے کہ میاں نوازشریف کی سزا تاحال برقرار ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پورے کیس کی دوبارہ انکوائری کی جاتی لیکن یہ معاملہ ارشد ملک کی برطرفی کے ساتھ ہی ختم کر دیا گیا۔
اب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار پر بھی انگلیاں اُٹھنے لگی ہیں۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے بیانِ حلفی دیا کہ میاں ثاقب نثار نے اُن کے سامنے ٹیلی فون پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کو ہدایات دیں کہ کسی بھی صورت میں میاں نوازشریف اور مریم نواز کی 2018ء کے انتخابات سے پہلے ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔ اِس بیانِ حلفی کے سامنے آنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمِن اللہ صاحب نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقین کو طلب کر لیا ہے۔ اِس کیس کا فیصلہ آنا ابھی باقی تھا کہ صحافی احمد نورانی ایک آڈیو سامنے لے آئے جس میں میاں ثاقب نثار کسی دوسرے شخص کو میاں نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف ہدایات دے رہے تھے ۔ احمد نورانی نے امریکی فرم گیرٹ ڈسکوری سے فرنزک کروا کر یہ آڈیو لیک کی۔ گیرٹ ڈسکوری کا دعویٰ ہے کہ یہ آڈیو بالکل درست ہے کیونکہ اِس میں کوئی رخنہ نہیں۔ اب گیرٹ ڈِسکوری کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اُ ن لوگوں کواِس آڈیو کا تجزیہ کرنے پر جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ تو صرف میاں ثاقب نثار ہی جانتے ہیں کہ اِس آڈیو میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا لیکن اُن کا دامن تو بہرحال داغدار ہوا اِس لیے مناسب تو یہی ہے کہ خود میاں ثاقب نثار اپنا کیس لے کر سپریم کورٹ جائیں اور اپنے دامن پر لگے داغ کو دھونے کی کوئی سبیل کریں۔ اُدھر ہماری اعلیٰ ترین عدالت کا بھی فرض ہے کہ وہ عدل کی شفافیت پر اُٹھنے والے سوالات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے عوام کے عدل پر مجروح ہوتے جذبات کا کوئی حل تلاش کریں۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کُرد کا لہجہ کرخت سہی لیکن اُنہوں نے جو کچھ کہا اُس میں سچائی کی مہک تھی۔ اُنہوں نے کہا ’’ملک میں کون سی عدلیہ ہے؟۔کیا یہ عدلیہ انسانی حقوق اور جمہوری اداروں کی حفاظت کرے گی؟‘‘۔ ہمارے انتہائی محترم جسٹس صاحبان کو یہ سوچنا ہوگا کہ آخر عوام عدالتوں میں کیوں رُل رہے ہیں اور اُن کا عدل پر سے اعتماد کیوں اُٹھتا جارہا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے پریس کانفرنس میں جو مطالبہ کیا ہے وہ بھی غور طلب ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر میاں ثاقب نثار کی آڈیو درست ہے تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ میاں ثاقب نثار کو ایسے غیرآئینی اقدامات پر کس نے مجبور کیا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا میاں ثاقب نثار کی شریف فیملی سے ذاتی مخاصمت تھی یا پھر بیرونی دباؤ ۔ ذاتی مخاصمت اِس لیے نظر نہیں آتی کہ یہ میاں نوازشریف ہی تھے جنہوں نے میاں ثاقب نثار کو پہلے سیکرٹری قانون اور بعد میں ہائیکورٹ کا جج بنایا۔ رہی بیرونی دباؤ کی بات تو اگر میاں ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کو ٹیسٹ کیس نہ بنایا گیاتو ایسی آڈیو اور ویڈیو آتی رہیں گی۔