لاہور،سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمان نے کہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر بارے حکومت کی طرف سے آگاہی کی سنجیدہ مہم چلائی ہی نہیں گئی ۔ وہ نیو نیوز کے پروگرام جمہور میں میزبان فرید رئیس کے ساتھ گفتگو کررہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی دوسری لہر زیادہ پریشان کن ہے ۔ایک تو کورونا وائرس تبدیل ہورہا ہے اور دوسرا ہم احتیاط نہیں کررہے ۔
ہمارے پاس سوائے ماسک پہننے اور اجتماعات سے دور رہنے کے سوا کوئی حل نہیں ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ مل کر وائرس کے خلاف جنگ متحد ہوکر لڑیں ۔ کورونا کی وجہ سے بچوں کے تعلیمی کیرئیر پر برا اثر پڑرہا ہے ۔ لیکن اس صورتحال میں کچھ بہتری بھی ہورہی ہے پوری دنیا میں اس وقت کورسز فری آن لائن موجود ہیں ۔ جن سے طالبعلم اور ٹیچر دونوں ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ موجودہ صورتحال میں بچوں پر بہت سختی سے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔شادی ہالز جلسے جلوس سب پر کنٹرول ہونا چاہئے ۔
بدقسمتی سے دوسری لہر میں کورونا کے کیسز میں شدت کا اندیشہ ہے ہمیں ا س پر ابھی کنٹرول کرنا پڑے گا ورنہ صورتحال کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے ۔
پروگرام میں موجود انڈس ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری کا کہنا تھا کہ کوروناوائرس کی دوسری لہر بہت تیزی سے پھیل اور بڑھ رہی ہے ۔ ہسپتالوں میں پریشر بہت بڑھ رہا ہے ۔ جب پہلی لہر کم ہوئی تو ہم نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چھوڑ دیں جس کی وجہ سے دوسری لہر پہلی سے زیادہ شدید ہوکر آئی ہے ۔
اس وقت وینٹی لیٹرز پر پریشر نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے سیکھ بھی بہت ہے ۔ پہلے ہر بندہ ہسپتال پہنچ جاتا تھا اب اگر کسی کو کوئی اثرات محسوس ہوتےہیں تو وہ گھر میں قرنطینہ ہوجاتا ہے ۔ بہت سے لوگ ٹیسٹ بھی نہیں کرارہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کوکورونا ہوگیا ہے تو وہ گھر میں قرنطینہ کرلیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر نے بھی تو یہ ہی کہنا ہے ۔ ہمیں کورونا کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا اب ماسک ہمارے لباس کا حصہ ہوگا ۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر اشرف نظامی نے کہا ہے کہ ہمیں عوام کو جس طریقے سے آگاہ کرنا چاہئے تھا دوسری لہر میں ویسا نہیں کرسکے ۔ اس مرتبہ عوام میں پہلے والا خوف نہیں ہے ۔ عوام احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے کہیں بھی دیکھ لیں لوگ ماسک نہیں پہنتے ۔ جس طرح کے ایس او پیز بنانے چاہئے تھے وہ نہیں بن سکے ۔
حکومت اپوزیشن اور عوام کسی نے بھی اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھائی ۔ اسوقت پاکستان کے پاس ایک لاکھ روزانہ کی بنیاد پر ٹیسٹ کئے جاسکتے ہیں لیکن ہم پچیس ہزار سے زائد ٹیسٹ نہیں کرپارہے ۔ ہمیں قدرت نے موقع دیا تھا لیکن ہم نے ان چار پانچ مہینوں میں احتیاط کی بجائے اپنے رویئے سے کورونا کو پھیلنے کا موقع دے دیا ۔