اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان آج نارووال کے قریب کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھیں گے، اس راہداری کی تعمیر کے بعد سکھ یاتریوں کو کرتارپور آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
گوردوارہ کرتار صاحب پر کرتارپور کوریڈور کے سنگ بنیاد کی تقریب کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں اور مختلف مقامات پر بھارت سے آئے سابق بھارتی کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کے لیے خیرمقدمی بینرز بھی آوایزاں ہیں۔کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن اسداللہ اور چناب رینجرز کے ونگ کمانڈر عدیل یوسف نے گوردوارہ کرتار صاحب میں انتظامات کا جائزہ لیا اور سکھ یاتریوں میں مٹھائی بھی تقسیم کی ۔
کرتارپور کوریڈور ڈیزائن سے متعلق معلوماتی بورڈ کے مطابق کرتارپور کوریڈور فیز1 میں ساڑھے چار کلو میٹر سڑک تعمیر کی جائے گی جبکہ بارڈر ٹرمینل کمپلیکس بھی تعمیر ہوگا۔اس کے علاوہ کرتار پور کوریڈور میں دریائے راوی پر 800 میٹر پل، پارکنگ ایریا اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے فلڈ پروٹیکشن بند بھی تعمیر ہوگا۔ دوسرے فیز میں ہوٹل اورگوردوارہ کرتار صاحب کی توسیع کی جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے واضح پیغام دیا کہ پاکستان اور مسلمان امن پسند ہیں، وفاقی وزیر مذہبی امور
اس حووالے سے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالحق قادری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی گوردوارہ کرتارپور صاحب آمد باعث فخر ہے، وزیراعظم کے کرتارپور راہداری کھولنے کے اعلان پر پوری سکھ قوم بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی پرمسرت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ہمسایہ ملک بھارت سمیت دنیا بھر کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان اور مسلمان امن پسند ہیں اور بھائی چارے کی فضاء کو قائم رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، کرتار پور راہداری کھولنے پر بھارت میں بھی حکومت پاکستان اور عمران خان کے اس اقدام کی تعریف ہورہی ہے اور اس عمل سے دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی اور صلاح پسند ہونے میں اضافہ ہوا ہے۔
ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر نے بابا گرونانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے آئے سکھ رہنماﺅں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔پیر نور الحق قادری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی کرتار پور صاحب آمد اور بھارت سمیت دنیا بھر سے آئے سکھ یاتریوں سے خطاب کے لیے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔
کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کے لیےنوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں بھارتی وفد گزشتہ روز پاکستان پہنچا تھا۔بھارتی وفد واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچا جہاں پنجاب رینجرز کے حکام نے ان کا استقبال کیا۔
سدھو دوبارہ پاکستان آمد پر خوشی سے نہال نظر آئے اور واہگہ بارڈر پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان نے 3 ماہ پہلے جو بیج بویا وہ پودا بن چکا ہے، مذہب کو سیاست اور دہشت گردی کی نظر سے نہ دیکھا جائے، فنکار اور کھلاڑی پُل بنانے والے اور نفرت کی دیوار گرانے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری امن کا راستہ ثابت ہوگی، ساتھ ہی انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچز کے انعقاد پر بھی زور دیا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ 22 نومبر کو بھارت کی وفاقی کابینہ نے پاکستان کی تجویز مانتے ہوئے کرتارپور سرحد کھولنے کی منظوری دے دی تھی۔
کرتار پور منصوبے کے تحت بھارت پاکستان کی سرحد تک اپنی حدود میں سکھ یاتریوں کیلئے سڑک تعمیر کرے گا۔
کابینہ اجلاس کے بعد بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ راہداری منصوبہ 3 سے 4 کلو میٹر پر مشتمل ہے جس سے سکھ یاتری سال بھر باآسانی ننکانہ صاحب جاسکیں گے۔
اس حوالے سے بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت بھارتی پنجاب کے ضلع گرداسپور میں ڈیرہ بابا نانک سے پاکستان کی سرحد تک راہداری تعمیر کرے گی۔ بھارتی ریلوے اس سلسلے میں ایک ٹرین چلائے گی جو گرونانک سے وابستہ مقدس مقامات سے گزرے گی اور اس فیصلے کا مقصد پاکستان جانے والے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔
کرتار پور کی تاریخی اہمیت
لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے۔ یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ء میں بسایا تھا، یہ گاؤں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
نارووال شکرگڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے۔ یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔ گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور اُن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے۔
گوردوارے کے انچارج سردار گوبند سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پہلے جنگل تھا، 2000ء میں اس کی دوبارہ تعمیر و مرمت کی گئی تو سکھ یاتریوں کی آمد شروع ہوگئی، گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنویں کو 'سری کھوہ صاحب' کہا جاتا ہے۔
گورداورے میں ایک لنگر خانہ بھی ہے جہاں یاتریوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔
سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔
واضح رہے کہ بھارتی سیکیورٹی فورس نے سرحد پر ایک 'درشن استھل' قائم کر رکھا ہے جہاں سے سکھ دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے، تاہم پہلی بار 1998 میں دونوں حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ہر سال سکھ یاتریوں کو کرتارپور کا ویزہ ملنا شروع ہوا۔