اسلام آباد : پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ نے کہا ہے کہ یکم دسمبر سے ایک ہیلپ لائن کا آغاز کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ایسے افراد کو مدد و مشاورت فراہم کرنا ہے جنہیں انٹرنیٹ یا ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے۔’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’ہیلپ لائن‘ کے آغاز کا مقصد ایسے افراد کو مشاورت فراہم کرنا ہے جنہیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔’’تو یہ ہیلپ لائن اُن کو بنیادی طور پر ڈیجیٹل سکیورٹی ایڈوئز یا سپورٹ دے گی. جو پاکستان کا نیا سائبر کرائم ریگولیشن منظور ہوا ہے اُس کے حوالے سے قانونی طور پر مسائل کے جو حل ہیں اُن کے بارے میں بتائے گی۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہ اپنی بات کرنا چاہتے ہیں اور نگہت داد کے بقول یہ ہیلپ لائن اُن افراد کو اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کرے گی۔’’وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ اُن کی بات سنی جائے، اُن کو ارد گرد کہیں جگہ نظر نہیں آتی کہ وہ بات کر سکیں۔ یہ ہیلپ لائن اُن کی مدد کرے گی۔‘‘’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ کی طرف سے کہا گیا کہ اس ہیلپ لائن کے ذریعے متاثرہ افراد کو درپیش نفسیاتی چیلنجوں کے بارے میں بھی مشاورت فراہم کی جائے گی۔نگہت داد کہتی ہیں کہ اس ہیلپ لائن کے آغاز سے ملک میں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے بارے میں اعداد و شمار بھی جمع ہو سکیں گے۔
’’بڑا مضبوط ڈیٹا ہو گا، جس کی بنیاد پر میرے خیال میں پاکستان میں جو مختلف ادارے کام کر رہے ہیں اُنھیں اپنی (حکمت عملی کی) تیاری میں مدد ملے گی۔‘‘واضح رہے کہ واشنگٹن میں قائم ’’فریڈم آن دی نیٹ‘‘ نامی ایک تنظیم کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے، جہاں انٹرنیٹ کے استعمال کی آزادی سب سے کم یا محدود ہے۔پاکستان میں رواں سال اگست میں کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی روک تھام کے لیے سائبر کرائم قانون منظور کیا گیا تھا، جس پر انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کی تنظمیوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا جاتا رہا ہے کہ اس سے انٹرنیٹ صارفین کی آزادی محدود ہو جائے گی۔