اسلام آباد : پاکستان مسلم لیگ (ن)کے اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے غیرمسلموں کے نام پر شراب کے گھناؤنے دھندے کی روک تھام کیلئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آئینی ترمیمی بِل جمع کرادیا ہے.
سوموار کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شراب نوشی کسی بھی معاشرے کی تباہی کا باعث ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ہر مذہب میں شراب نوشی کی ممانعت ہے،سندھ ہائی کورٹ کا صوبے بھر سے شراب خانے فوری بند کرنے کے احکامات دینا خوش آئیند اقدام ہے، سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی کرتے ہوئے واضح الفاظ میں ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ احکامات سے شراب نوشی کی اجازت دینے کا تاثر نہ لیا جائے۔
ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی جو ملک بھر میں بسنے والے ہندوؤں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہندو کونسل کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں، نے 1973ء کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی شق نمبر 37 ملک میں معاشرتی انصاف کی فراہمی اور سماجی برائیوں کا خاتمہ یقینی بنانے پر زور دیتی ہے، الکوحل کا استعمال ممنوع ہے ماسوائے میڈیکل ادویات اور غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر۔
ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے ہندو دھرم سمیت دیگر مذاہب کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے علماء کرام، پنڈت ، پادری اور روحانی پیشوا حضرات کا شراب نوشی کی ممانعت پر اتفاق ہے اوروہ مذہب کے نام پر شراب کے کاروبار کی اجازت دینے کو توہین مذہب اقدام سمجھتے ہیں، انہوں نے صحافیوں سے استفسار کیا کہ انہیں پاکستان میں بسنے والے کسی ایک مذہب کا بتایا جائے جو مذہبی تہوارپر شراب نوشی کی اجازت دیتا ہو،ڈاکٹر رمیش ونکوانی کے مطابق سال کے تمام دِن شراب خانوں کا کھلا رہنا آئین کی شق کا غلط استعمال ہے۔
انہوں نے سعودی عرب، ایران، بنگلہ دیش ، کویت، سوڈان سمیت دیگر اسلامی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں شراب نوشی پر سختی سے پابندی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا،بحرین، مصر، وسط ایشیائی ریاستوں میں شراب خانے تو موجود ہیں لیکن غیرمسلموں کے نام پر نہیں ۔ ایک سوال کے جواب میںڈاکٹر رمیش نے کہا کہ انکی معلومات کے مطابق سندھ بھر میں لگ بھگ 161شراب خانے فعال ہیں، اگر شراب خانوں سے ریونیو اکٹھا ہونے کا موقف مان لیا جائے تو اس کاروبار کو غیرمسلموں کے ساتھ منسوب کرنے کی بجائے تمام شہریوں کو بلا تفریق روزگاری مواقع فراہم کرکے ریونیو میں مزید اضافے پر غور کیوں نہیں کیا جاتا.
انہوں نے اِس امر پر تعجب کا اظہار کیا کہ سپرہائی وے سے ملحقہ علاقے نوری آبادمیں حال ہی میں شراب خانہ کھولا گیا ہے جبکہ وہاں ایک بھی غیرمسلم رہائش پذیر نہیں ۔انہوں نے کہا کہ زیادہ تر شراب کی فیکٹریاں بلوچستان میں قائم ہیں ، اور اس حوالے سے شراب کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی سختی سے یقینی بنانی چاہیے۔
ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے معاشرے کے تمام مکاتبِ فکر سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تمام مذاہب کا احترام یقینی بنانے کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی شق نمبر37کے پیراگراف (h)سے غیرمسلموں اور مذہبی تہواروں پرشراب نوشی کی اجازت ہذف کرنے کیلئے انکے جمع کردہ آئینی ترمیمی بِل کی حمایت کی جائے ۔