بھارتی عدالت نے کشمیری رہنما اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یاسین ملک کو جھوٹے کیس میں عمر قید کی سزاسنادی۔
بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی عدالت نے یکطرفہ ٹرائل کے بعد 19 مئی کو یاسین ملک کو جھوٹے مقدمے میں مجرم قرار دیا تھا۔ یاسین ملک نے دہشت گردی کی کسی کارروائی یا دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کا اعتراف نہیں کیا۔کشمیری حریت رہنمایاسین ملک کا عدالت میں جج سے مکالمہ ہوا جہاں بھارتی تحقیقاتی اداروں نے عدالت سے سزائے موت دینے کی درخواست کی۔یٰسین ملک نے جواب دیتے ہوئے عدالت سے کہاکہ میں بھیک نہیں مانگوں گا،آپ کو جو سزا دینی ہے دے دیجیے۔ اس مقدمے کی پیروی کیلئے یٰسین ملک نے مقبوضہ کشمیر کے معروف قانون دان راجہ محمد طفیل ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کیں لیکن بھارت نے ریاستی طاقت کے ذریعے ان پر اتنا دباؤ ڈالا کہ راجہ طفیل برین ہیمرج کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے جس کے بعد یٰسین ملک نے کسی بھی وکیل کی خدمات حاصل نہ کیں، یٰسین ملک کو خدشہ تھا کہ اگر انہوں نے ایسا کوئی وکیل کر لیا جو بھارتی حکومت کا دباؤ برداشت نہ کر سکا تو ایسا وکیل انہیں عدالت کے روبرو اور تاریخ میں ایک مجرم کے طور پر پیش کرنے کی سازش کا حصہ بھی بن سکتا ہے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا کیس خود لڑنے کا فیصلہ کیا لیکن بھارتی خصوصی عدالت نے دوران سماعت یٰسین ملک کو صفائی کا پوری طرح موقع ہی فراہم نہیں کیا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہونے والی ایک سماعت کے دوران یاسین ملک نے وکیل کی مدد لینے سے انکار کیااورکہا کہ وہ گواہوں پر خود ہی جرح کریںگے،لیکن ان کوسوالات پوچھنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے سزا کے فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ ناقابل قبول ہے اور ہم ہار نہیں مانیں گے۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا نے جھوٹاپراپیگنڈا کرکے خبریں پھیلائی کہ یاسین ملک نے اقبال جرم کرلیا ہے، جو حقیقت نہ ہے۔یاسین ملک کو نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ دنیا بھر میں تحریک کی علامت سمجھاجاتاہے، انہوں نے گزشتہ بتیس برسوں سے تحریک آزادی کشمیر کی ڈٹ کر قیادت کی اور بھارتی دباؤ کے سامنے نہ جھکے۔
بھارت نے جب11 فروری 1984 کو معروف کشمیری رہنما مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کیاتو کشمیر میں حریت تحریک شروع ہوئی جو کئی سال تک جاری رہی۔ اس تحریک کے دوران یاسین ملک کو پہلی مرتبہ گرفتارکیا گیا۔ 56سالہ یاسین ملک پرالزامات انڈیا کے نئے دہشت گردی مخالف قانون 'اَن لافْل ایکٹوِٹیز ایکٹ' یعنی یو اے پی اے اور انڈین پینل کوڈ کے تحت عائد کیے گئے ہیں۔10مئی سماعت کے دوران اْنہیں 2017 میں دہشتگرد کارروائیوں، دہشت گردی کیلئے سرمایہ اکٹھا کرنے، دہشتگردانہ حملوں کی سازش ، مجرمانہ سازش اور ملک دْشمن خیالات کے اظہار جیسے جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ یاسین ملک پر 1989 میں اْس وقت کے انڈین وزیرداخلہ اور کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سید کے اغواء کرنے اور 1990 میں انڈین فضائیہ کے چارافسرز کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کا بھی الزام ہے، تاہم تازہ فرد جرم میں ان الزامات کا ذکر نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر یاسین ملک دہشت گرد تھے تو بھارت کے 7 وزیراعظم اسے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے، اور اگر وہ واقعی دہشت گرد تھے تو کیس کے دوران اسکے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟ جبکہ وزیراعظم واجپائی کے دور میں یاسین ملک کوپاسپورٹ بھی جاری ہوا۔ تضاد تو یہ ہے کہ یاسین ملک کوانڈیااور دیگر ممالک میں اہم جگہوں پر لیکچرز دینے کیلئے دعوتیں دی جاتی رہی ہیں۔یقینا جھوٹ پر مبنی یکطرفہ فیصلہ کشمیری اور پاکستانی عوام کسی صورت قبول نہیں ہے۔انڈین حکام نے کشمیر کی سب سے طاقتور اور پر امن آواز کو خاموش کرنے کیلئے عدالت پر اثر و رسوخ استعمال کیا۔سزا کے اعلان پرمقبوضہ کشمیرسرینگر میں ہڑتال کے باعث تجارتی سرگرمیاں معطل ہو گئیں یاسین ملک کے گھر کے باہر کشمیر ی عوام بالخصوص خواتین نے بھی آزادی کے حق میں نعرے بازی اورمظاہرہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی یاسین ملک پر لگے الزامات کو فرضی قرار دے کر بھارتی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیاہے اور آزادکشمیر میں بھی اس حوالے سے مظاہرے ہوئے ہیں۔ کئی برس تک حریت سرگرمیاں جاری رکھنے کے بعد 1994 میں یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا اور عہد کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔اسی سال حریت پسندوں کا اتحاد حریت کانفرنس بھی وجود میں آیا اور یاسین ملک بھی اسکے مرکزی رہنمائوں میں شامل ہوگئے۔ گذشتہ عشرے کے وسط میں یاسین ملک نے وادی بھر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حق میں ایک دستخطی مہم چلائی جس کا نام سفرِ آزادی تھا۔ اس مہم کی عکس بندی اور کشمیر کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کشمیریوں کو کلیدی کردار دینے کا مطالبہ لے کر وہ 2006 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملے تھے۔انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں سے سوال ہے کہ مسئلہ کشمیر پردنیا کا ضمیر کیوں سوگیاہے؟کشمیر میں تاحال ایک لاکھ شہادتیں، 8 ہزاراجتماعی قبریں اور 10 ہزارلاپتہ نوجوان بھی عالمی ضمیر کو کیوں جھنجوڑ نہ سکے ہیں۔
کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ان کی جائز جدوجہد کو دہشتگردی کے نام کرنے کی گھناؤنی بھارتی کوششوں نے انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور کشمیریوں کی بنیادی آزادیوں کو غصب کرنے کی بھارت کی گہری سازش ہے۔ یٰسین ملک انڈین نظام انصاف پر یقین ہی نہیں رکھتے اور یہ فرد جرم یکرفہ طور پر عائد کی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے وکیل رکھنے سے انکار کیا تھا۔ درحقیقت یسین ملک کو کبھی بھی شفاف مقدمے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ اوّل تو ان کا مؤقف ہی نہیں لیا جاتا تھا یا انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا تھا، اگر کبھی آن لائن پیشی کے دوران وہ بات کرتے تو ان کا مائیک بند کردیاجاتاتھا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان پر تشدد بھی کیا گیا ہے، یقینًاانڈین حکومت کی قید میں یاسین ملک کی جان کوشدیدخطرہ لاحق ہے کیونکہ درجنوں کشمیری رہنماؤں کو پہلے بھی تشدد سے ہلاک کیا جا چکا ہے یا پھر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔یاسین ملک نے کسی دہشتگرد کارروائی یا دہشتگردی کیلئے مالی معاونت کا قطعاًاعتراف نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہاکہ وہ حق خود ارادیت کی جد و جہد چلا رہے ہیں جو بھگت سنگھ اور مہاتما گاندھی کی بھی تھی۔ یہ من گھڑت اور جھوٹا مقدمہ ہے۔یاسین ملک نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ پر امن کردار ادا کیا ہے۔ ضروری ہے کہ یاسین ملک کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے اور خاندان سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے بارے میں کسی بھی قسم کا اعترافی بیان نا قابلِ یقین اورصرف جھوٹا پراپیگنڈا ہے۔ان کی سزا کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے۔خاص طور پر کشمیری جہاں بھی آباد ہیں وہ سراپا احتجاج ہیں۔ انڈین حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام کشمیری لیڈروں کو رہا کرے اورمقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والے بہیمانہ اور منظم ظلم و ستم کو ریاستی دہشتگردی کی پالیسی کے طور پر استعمال کرنا فوری طور پر بند کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت ان کی امنگوں کے مطابق دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر سے یٰسین ملک کی والدہ اور پاکستان سے ان کی اہلیہ مشعال ملک اور 10 سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارت کے ہاتھوں یسین ملک کا عدالتی قتل رکوانے کیلئے اپنا کردار اداکریں۔لہٰذا یاسین ملک کا کیس انڈیا کی عدالت کے فیصلے کے برخلاف عالمی عدالت انصاف میں لے جایا جائے اور انصاف پر مبنی اوپن ٹرائل کے ذریعے کیس کو سنا اور فیصلہ کیا جائے۔