بچ جانے والے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 جنوری 1972ء کو ملتان میں پاکستان کے چیدہ چیدہ سائنس دانوں کا اجلاس بلایا اور اُن کی توجہ اِس طرف دلائی۔ کچھ محققین کے نزدیک پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا خیال پہلے پہل 50ء اور 60ء کی دھائی کے حکمرانوں کے ذہنوں میں آیا جس میں اول الذکر نام سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا ہے۔ بعدازاں صدر ایوب خان نے بھی اس حوالے سے تھوڑی بہت سوچ بچار کی۔ اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو نئے نئے سیاست میں آئے تھے اور سکندر مرزا اور ایوب خان کی وزارتوں میں وزیر بھی رہے۔ تاہم پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر باقاعدہ کام 1974ء میں شروع ہوا۔ پاکستان کے لیے ایٹم بم کی کہانی کے ابتدائی آئیڈیے سے لے کر عملی ٹیسٹ تک گفتگو میں بظاہر جذباتی نکات کا سہارا لیا جاتا رہا۔ موجودہ زمانہ اہم فیصلوں میں جذبات کے بجائے منطقی دلائل کو اہمیت دیتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بارے میں منطقی دلائل کو ہی زیربحث لانا چاہئے۔ ملٹری حکمت عملی اور قومی سلامتی کی تھیوری میں ’’میوچل اَشورڈ ڈسٹرکشن‘‘ یعنی ’’یقینی باہمی تباہی‘‘ ایک اہم ڈاکٹرائن ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپس میں برسرِپیکار جنگ کے مخالفین ایک دوسرے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بھرپور استعمال کریں اور ان ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں جنگ کے سارے فریق مکمل طور پر تباہ ہو جائیں۔ ’’یقینی باہمی تباہی‘‘ تھیوری کی بنیاد سدِجارحیت یعنی ڈیٹرنس کے فلسفے پر ہے۔ اس تھیوری میں یہ دھمکی موجود رہتی ہے کہ اگر دشمن کے خلاف بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو دشمن بھی ایسا ہی کرے گا۔ لہٰذا یہی دھمکی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ’’یقینی باہمی تباہی‘‘ تھیوری دنیا میں بے حد ٹینشن کا باعث تھی اور ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اسی کے باعث کسی حد تک دنیا کا امن متوازن ہے۔ دفاعی تجزیئے کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی بہترین مثال شمالی کوریا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں نے ہی اسے تمام بیرونی حملوں سے محفوظ رکھا اور سانس روک دینے والی بین الاقوامی ایمبارگو سے بھی بچا لیا جس میں اپنے دفاع کے لیے عام روایتی اسلحہ خریدنے پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتے ہوئے بعض تجزیہ نگار جاپان اور سعودی عرب جیسے ملکوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ اُن کا دفاع ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر بھی مضبوط ہے۔ اس سلسلے میں پہلے جاپان کو لیتے ہیں۔ جاپان کی معیشت اور کرنسی انٹرنیشنل مارکیٹ میں بہت مضبوط ہے۔ لہٰذا جاپان کا دفاع مضبوط رہنا مغرب اور ڈالر دونوں کے فائدے میں ہے۔ سعودی عرب اپنے تیل کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں ڈالر کے عوض فروخت کرکے انٹرنیشنل کرنسی میں ڈالر کی ٹریڈنگ کو تحفظ دیتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکہ سے ڈیل کررکھی ہے کہ وہ اپنے تیل کو ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں فروخت نہیں کرے گا۔ یہی وہ ڈیل ہے جو سعودی عرب کو کسی بڑے بیرونی حملے سے محفوظ رکھتی ہے۔ پاکستان کے پاس جاپان اور سعودی عرب جیسی معاشی طاقت کی کوئی عیاشی نہیں ہے۔ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات بھی دشمن ممالک کے مقابلے میں زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ اگر خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے
سے مٹ بھی جائے تب بھی دنیا کو کوئی معاشی دھچکا نہیں لگے گا۔ ’’یقینی باہمی تباہی‘‘ تھیوری کے تحت پاکستان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔ اس طرح اب دنیا پاکستان کے پاس شمالی کوریا کی طرح صرف آخری آپشن نہیں چھوڑ سکتی جس کے تحت شمالی کوریا کو مجبوراً ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دینا پڑی۔ امریکی بھی پاکستان کو روایتی ہتھیار بیچنے پر مجبور ہیں تاکہ پاکستان شمالی کوریا کی طرح روایتی ہتھیاروں کی عدم دستیابی کے باعث ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات نہ کرے۔ ’’پاکستان ایٹم بم کے بغیر‘‘ اور ’’پاکستان ایٹم بم کے ساتھ‘‘ دونوں طرح کی ہسٹری ہمارے سامنے کھلی پڑی ہے۔ جو دانشور ایٹم بم کے حق میں نہیں اُن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جب تک پاکستان کے پاس ایٹمی پروگرام نہیں تھا اُس وقت تک پاکستان نے دنیا میں کتنی ترقی کرلی تھی؟ کیا پاکستان میں اُس وقت صحت اور تعلیم وغیرہ کا معیار بہت بلند تھا؟ جب تک پاکستان کے پاس ایٹم بم نہیں تھا اُس وقت تک دشمن نے پاکستان پر تین باقاعدہ جنگیں نافذ کیں۔ پاکستان کے پاس ایٹم بم آنے کے بعد کیا دشمن کوئی باقاعدہ جنگ نافذ کرسکا؟ اگر 1971ء میں پاکستان کے پاس ایٹم بم ہوتا تو کیا صورتحال مختلف نہیں ہوتی؟ بھارت کے سکیورٹی ایکسپرٹ اجیت دوول نے ایک دفعہ نئے سٹائل کی دھمکی دی تھی کہ ’’بھارت اپنے دفاع میں حملہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرسکتا ہے‘‘۔ بھارت کے سابق وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اس سے بھی آگے بڑھ کر کہا تھا کہ ’’دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گرد بن کر ہی کریں گے‘‘۔ پاکستان کے خلاف بھارت کی سابقہ جنگی کارروائیوں اور موجودہ جنونی عزائم کو دو طریقوں سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ جب بھارت ان منصوبوں پر عملی کام شروع کرے تو پاکستان بھی اُن کا بھرپور عملی جواب دے۔ اس صورتحال میں جیت اور ہار سے زیادہ شہری خون خرابے کا امکان ہے جبکہ ٹارگٹ بھی حاصل ہونے کا امکان محدود ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ بھارت کے جنگی جنون کو ایسی دھمکی سے روکا جائے کہ اُسے اپنے بھی لالے پڑنے کا خطرہ ہو۔ اس کے لیے اوپر بتائی گئی وہی ملٹری ڈاکٹرائن یعنی ’’یقینی باہمی تباہی‘‘ تھیوری ہے۔ نیوکلیئر حکمت عملی کے بنیادی اصول وضع کرنے والے امریکی حکمت عملی ساز ’’برنارڈ بروڈی‘‘ نے 1959ء میں لکھا ’’بااعتماد اور یقینی نیوکلیئر ڈیٹرنٹ کو ہروقت تیار رکھنا چاہئے لیکن اس کا استعمال کبھی نہیں ہونا چاہئے‘‘۔ کراچی یونیورسٹی میں پاکستان سٹڈی سنٹر کے استاد ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق قائداعظمؒ نے طاقتور اور کمزور ممالک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اشارتاً کہا تھا کہ ’’اگر جاپان کے پاس اپنا ایٹم بم ہوتا تو وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا تھا‘‘۔ قائداعظمؒ کے اس اشارے کو نواز شریف کے دورِ حکومت میں 28 مئی 1998ء کو ڈی کوڈ کردیا گیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کتنا پیسہ خرچ ہوا یا نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد کیا کیا پابندیاں لگیں؟ پاکستانیوں نے اُن مشکل وقتوں کو یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھا لیکن دنیا کو پاکستان کا ایٹم بم ضرور یاد رکھنا چاہئے۔ چالاک اور سمجھدار دشمن اشارے سمجھ جاتے ہیں۔ پاکستان کا ایٹم بم ایک اشارہ ہی تو ہے۔ دشمن نے تو اشارہ سمجھ لیا ہوگا لیکن افسوس پاکستان کو یہ باہمت اشارہ بنانے والے دونوں حکمرانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ ایک کو پھانسی دے دی گئی دوسرے کو باربار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا لیکن آج یومِ تکبیر یعنی 28مئی کو یہ صدا ضرور سنائی دے گی ’’زندہ باد ذوالفقار علی بھٹو، زندہ باد نواز شریف‘‘۔