کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ عمران خان قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہا ہے ؟کیا آپ یہ بات بھی ماننے کیلئے تیار ہیں کہ عمران خان الیکشن نتائج کو کھلے دل سے قبول کرے گا؟ اورکیا آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان منتخب ہونے کے بعد پاکستان کو دنیا میں تنہا نہیں کرے گا ؟ اگر آپ یہ تمام باتیں تسلیم کرتے ہیں تو آپ کومشورے کی نہیں علاج کی ضرورت ہے ۔ میں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ عمران خان مجھ سے بہت بہتر‘ بلکہ بہترین کرکٹ آل راونڈر تھا ۔حالانکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا اُس کا کرکٹ میں کوئی تقابل ہی نہیں بنتا مگر عمران خان یہ بات کبھی بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہوا کہ اُس کے ساتھیوں میں تجربہ کار سیاسی ورکر ز اُس سے بہتر سوچ سکتے ہیں ۔اسے آپ اُس کی ہٹ دھرمی کہیں یا پھر نرگسیت لیکن وہ ایسا ہی ہے اور میں یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہا بلکہ یہ قیامت 26 سال مجھ پر گزری ہے ۔عمران خان جتنا اچھا کرکٹر تھا اُس سے کہیں زیادہ بُرا سیاستدان ثابت ہوا ہے ۔پاکستانی عقل کو وہ اس معیار پر سمجھتا ہی نہیں کہ اُس پر اعتبار کرسکے اور برآمد شدہ عقل کے نتائج پوری قوم کے سامنے ہیں ۔انتہائی ذمہ داری کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ غیرت مند آدمی کی تحریک انصاف میں گنجائش خود عمران خان نے ختم کردی ہے ۔اُس کی خواہش ہے کہ دنیا کی تمام غلامیوں سے نکل کر اُس (عمران خان) کی غلامی میں آ جائو۔ اب بھلا آزاد ذہن ایسی کسی پابندی کو کیسے قبول کرسکتے ہیں ۔ سیاست میں اختلاف ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن تحریک انصاف کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اُس کے ورکرز عمران خان کے ساتھ اختلاف کومخالفت قرار دے دیتے ہیں ۔اب اختلاف اور مخالفت کو سمجھنے کیلئے بھی جو عقل درکار ہے وہ کم از کم مجھے اب تو تحریک انصاف میں بالکل دکھائی نہیں دے رہی البتہ کسی زمانے میں اختلاف کا رواج عام تھا ۔
2011ء میں تحریک انصاف پر عروج آیا تو اُس کے بانی اراکین کا زوال شروع ہو گیا ۔جن کے خلاف تحریک انصاف کا ورکر گزشتہ15 سال سے برسرِ اقتدار تھا وہ پارلیمانی بورڈ میں آ بیٹھے ۔ 1971ء سے نیازیوں کا گمشدہ قبیلہ بازیاب ہو گیا اور سیاست کے میدان کارزار سے جو جنگی قیدی ہاتھ لگے عمران خان نے اپنے سیاسی جرنیل اُن جنگی قیدیوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیئے ۔ پاکستان تحریک
انصاف میں قاف لیگ ‘ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اورمسلم لیگ سے آئے اجنبیوں نے عمران کے گرد گھیرا تنگ کردیا ۔2013 ء کے انٹرا پارٹی الیکشن کے نتیجہ میں تحریک انصاف کے مقابل ’’ انصاف مرکز ‘‘ جماعت اسلامی کے سابقون نے کھول لیا اورمنتخب تنظیم کے مقابل یہ دفتر 2018ء کے انتخابات تک چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں چلتا رہا۔21یا 22 جولائی 2018 ء کو میری چیئرمین تحریک انصاف سے آخری ملاقات جمشید اقبال چیمہ کی انتخابی مہم کے جلسہ کے سٹیج پر ہوئی۔اُس کے بعد عمران خان وزیر اعظم بن گیا اور کبھی لوٹ کر نہیں آیا ۔لاہور سے منتخب ایم ۔این ۔ ایز اور ایم ۔ پی ۔ ایز نے پارٹی کے پرانے ورکرز کو شجر ممنوع قرار دے دیا۔ جوورکرز معاشی اور عدالتی انصاف کی فراہمی کا یقین پاکستان کی عوام کو دلا رہے تھے وہ خود معاشی ابتری اور عدم ِ تحفظ کاشکار ہو گئے ۔لاہور کا صدر ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا جس کا ڈومیسائل ہی لاہور کا نہیں تھا اور اُس کی ذہنی حالت بھی عام پاکستانی کے معاشی حالات ایسی تھی ۔پنجاب کا صدر جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمدکے داماد اعجاز چوہدری (المشہور اعجاز پیالہ یہ نام انہوں نے بطور کارکن اسلامی جمعیت طلباکمایا تھا)۔اعجاز چوہدری کو خدا کا خوف تھا یا نہیں البتہ وہ کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کی سابق ناظمہ جمعیت ڈاکٹر یاسمین راشد سے انتہائی خوف کھاتا تھا اور اس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بھی کیا ۔جہانگیر ترین اورشاہ محمود قریشی کی سرائیکی لڑائی نے پاکستان تحریک انصاف کو سارے پاکستان میں تقسیم کرکے رکھ دیاجس میں آخر کار شاہ محمود قریشی عمران خان کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ عمران خان کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اُس کی سیاسی حماقتوں کی پردہ پوشی کرسکے ورنہ شاہ محمود قریشی کا ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والا سفرمختلف سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہوا حال تحریک انصاف میں منجمد ہے جسے تھوڑی سے گرمی موم کر دے گی۔اسد عمر کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں البتہ میجر جنرل (ر)غلام عمر کا بیٹا ہونا اُس کی واحد خوبی ہے ورنہ اُس کا ابتدائی تعارف جس شعبے میں کرایا گیا تھا وہاں اُس کی کارکردگی بالکل صفرہے ۔حماد اظہراوراُن کے والد صاحب بھی فتح لاہور کے بعد حلقہ ء عمران میں شامل ہوئے جس کی واحد وجہ نواز شریف مخالفت تھی حالانکہ نواز شریف کا جرم یہ تھا کہ اُس نے کونسلر لیول کے ایک آدمی کو پنجاب کا گورنر بنا دیا ۔عمران خان نے نواز شریف کی اسی غلطی کو تھوڑی سے تبدیلی کے ساتھ بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر دہرا دیا۔ لاہور کا کوئی ایم ۔ این ۔اے یا ایم ۔ پی ۔ اے اپنے دورِ اقتدار میں عوام سے رابطے میں نہیں رہا اور ایسا ہونا قدرتی بات تھی کیونکہ جن کا عوام سے تعلق تھا انہیں تحریک انصاف گھروں میں چھوڑ گئی تھی۔
موجودہ سیاسی صورت حال کی ذمہ دار صرف اور صرف وہ ریاستی مشینری ہے جو آئین اور قانون پر عمل درآمد کرانے میں یا تو مکمل ناکام ہو چکی ہے یا پھر اُن کی صلاحیتیں کھل کر پہلی بار عوام کے سامنے آرہی ہیں ۔عدلیہ کے پہ درپہ فیصلے ایک جتھے کو مکمل ہرجرم کرنے کی مکمل اجازت د ے رہے ہیں ۔جس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اول : ریاستی ادارے چیئرمین تحریک انصاف سے مل کر پاکستان میں یک جماعتی نظام لانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے عمران کے رستے کی ہر دیوار کو قانون کے بلڈوزر سے گرایا جا رہا ہے ۔دوم : تحریک انصاف کا اداروں پر اعتماد بحال کرایا جا رہا ہے اور اُس کے بعد فارن فنڈنگ کا ایک ہی فیصلہ تحریک انصاف کا مستقبل تاریک کرنے کیلئے کافی ہو گا لیکن پاکستان کے’’ مستقل حکمرانوں‘‘ کی تاریخ ہے کہ وہ ایک’’ پولیٹکل ہٹ مینPolitical HitMan ‘‘ ہمیشہ حقیقی عوامی قوتوں کے خلاف بچا کر رکھتی ہیں جو مشکل وقت میں اُن کی ’’ مشکل کشائی‘‘ کرسکے ۔یہ کھیل تماشے 75 سال سے مختلف شکلوں میں جاری ہیں لیکن کائنات میں اگر کوئی قانون کبھی تبدیلی نہیں گا تووہ خود تبدیلی کا قانون ہے ۔ اگر اس پاکستان کے سابق اور موجود ہ قیادتیں لانے میں ناکام رہی ہے تو ذہن میں رہے کہ اس نے ایک نہ ایک دن آنا ہے ۔یہ غصے سے بھری یوتھ‘ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پھر سے ’’ہنسی خوشی ‘‘رہنے لگے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے ۔ اتنے گرم سیاسی ماحول میں الیکشن کا مطالبہ ہی پاکستان کے خلاف سازش ہے اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ عمران الیکشن نہیں سلیکشن کا مطالبہ کررہا ہے لیکن آپ اُسے 342 نشستیں بھی دے کر دیکھ لیں اس موقف کے ساتھ گلوبل دنیا آپ کو تنہا رہنے کی اجازت بھی نہیں د ے گی کہ آپ ایک ایٹمی پاور ہیں ۔ ایک ایسی ایٹمی پاور جس پر ایٹمی پھیلائو کا الزام ہو ’ جس کا ہمسایہ طالبان کا افغانستان اور مودی کا ہندوستان ہو۔آپ ’’ جنج کے گھوڑے جنگ میں ‘‘استعمال کرنا چاہتے ہیںجس کا نتیجہ ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہو گا اورہم اس کے متحمل ہو نہیں سکتے ۔