مقتدر کلاس میں سے کسی کے بچے کو اگر شدید گرمی میں پنکھے کے نیچے دوسری منزل پر کسی امتحان میں شریک ہونا پڑے، تو سوچیں اس کے بعد پالیسی سازوں، تعلیمی افسران، امتحانی عملہ کو کس غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، ممکن ہے کہ اگلے ہی رو ز امتحانی ہال میں ائر کنڈیشنڈ نصب ہو جائیں امیدوار کو ہر سہولت پہنچانے کے لئے سرکاری مشینری حرکت میں آجائے۔چونکہ اس طرح کی صورت حال ہمارے ہاں کبھی پیش آنے کی کوئی امید نہیں اس لئے فرض کرنے کا فائدہ نہیں، حقیقت میں اگر ایسا ہو جائے تو بہت سے طلباء و طالبات، امتحانی عملہ کا بھلا ہو ، مقتدر کلاس کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہی نہیں ہوتے، وہ حصول علم کے لئے باہر سدھار جاتے ہیں، اس لئے اس کلاس کو اندازہ ہی نہیں، طالب علم کے مسائل کیا ہیں؟ انکی مالی مشکلات کیا ہیں، انھیں کس ماحول اور موسم میں امتحانات میں شرکت کرنا پڑتی ہے۔
اگرچہ اس وقت ریاست میں وہی نظام چل رہا ہے جو انگریزبہادر چھوڑ گیا ، معمولی ترمیم کے ساتھ یہ تاحال نافذ العمل ہے، اس میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم بھی ہے، ہمارے ہاں یکساں نظام تعلیم پر اب تو سیاست بھی ہو رہی ہے، مگر پلڑا بدیشی نظام ہی کا بھاری ہے، البتہ انگریز کے چند راہنماء اصولوں کی داد ضرور دینا پڑے گی، جو اس نے امتحانی نظام کی بابت طے کئے اور قیام پاکستان سے اب تک اس پر عمل ہورہا ہے، برطانوی انتظامیہ نے خطے کے ماحول، موسم کو سامنے رکھتے ہوئے، امتحانی شیڈول مرتب کیا تھا،تعلیمی سیشن تین ماہ کی موسم گرما کی تعطیلات کے باوجود مکمل ہوتا تھا، ہمارے پالیسی سازوں نے اس کی پیوند کاری شروع کی،امتحانی سیشن کا دورانیہ تبدیل کیا ، نیا امتحانی شیڈول مرتب کیا، پرائمری، ایلیمنٹری،سیکنڈری امتحانات کا انعقاد کرایا گیا، پھر یکے بعد دیگرے ان میں ترامیم کی جاتی رہیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، تمام قومی اداروں میں شائد محکمہ تعلیم ہی وہ بد قسمت شعبہ ہے جو ہمیشہ تختہ مشق بنا رہا ہے۔
برطانوی عہد میں بچے موسم بہار کی چھٹیاں بھی انجوائے کرتے تھے ،کتابیں بھی بر وقت سکولوں یا مارکیٹ میں میسر ہوتی تھیں، معیار تعلیم بھی بہتر تھا۔ اب موسم کی حدت اور شدت کے باوجود موسم گرما کی تعطیلات بھی کم کی جارہی ہیں اور امتحانات بھی اس شدیدموسم گرما میں لئے جارہے ہیں جب سورج سوا
نیزے پر ہوتا ہے، اس موسم میں سفر کرکے امتحانی مرکز پہنچنا بھی ایک معرکہ ہے، جن عمارات میں یہ مراکز قائم ہیں، وہاں شدید گرمی ہوتی ہے،سرکاری تعلیمی اداروں میں ائر کنڈیشنڈ تو رہے ایک طرف پنکھے میں چیونٹی کی رفتار سے چلتے ہیں، طرفہ تماشہ یہ ہے جس موسم گرما میں زیادہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اسی میں تمام امتحانات منعقد کئے جاتے ہیں۔
عہد برطانیہ میں ہر قسم کے امتحانات اپریل تک مکمل کر لئے جاتے تھے، اب جون اور جولائی کی سخت گرمی اور حبس میں انٹرلیول کے امتحانات ہوتے ہیں، یہ وہ لیول ہے جسکی بنیاد پر بچوں کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے۔ پسینے سے شرابور، لوڈشیڈنگ کے ماحول میں گرم پانی پیتے ہوئے قوم کے یہ نو نہال اپنی قسمت کا پروانہ لکھ رہے ہوتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کے بے ہوش ہونے کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی پالیسی سازوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی،ہماری غالب آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے،نو عمر بچوں کو اس حدت میںپبلک ٹرنسپورٹ میں سفر کرنا پڑے تو وہ پرچہ کیسے حل کرے گا؟
سرکاری اداروں میں انکی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جن میں امتحانی ہال موجود ہیں، اکثر کے تنگ و تاریک کمرے ہوتے ہیں، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوتے ہیں ، ان کے آگے کوئی پردہ بھی نہیں ہوتا جو گرمی کی شدت کو کم کر سکے لوڈشیڈنگ کا عذاب اس کے علاوہ ہے، جہاں طالبات کے سنٹر ہیں، وہاں کوئی انتظار گاہ ہی نہیں جس میں کسی بچی کی والدہ انتظار کر سکے، کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پیپر ختم ہونے تک اس کو بھی اذیت اٹھانا پڑتی ہے، کیا کسی تعلیمی افسر نے ان مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے؟ آ خر وہ کونسی مجبوری ہے جو محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو شدت موسم میں امتحانی جبر پر اکساتی ہے، کم از کم مڈل، میٹرک، انٹر کے امتحانات کو اپریل سے پہلے ہر حال میں مکمل ہو جانا چاہئے۔
ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب کی بار فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سول سروس CSSکے لئے اسی گرم موسم کا انتخاب کیا ہے، نجانے اس امتحان میں شریک امیدواروں کا تعلیمی سیشن اور نئے سال کا آغاز کب ہونا ہے؟ دیگر تعلیمی بورڈ کی مجبوری تو کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے، کہ بچوں کے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو نا ہے، نئے اداروں میںطلباء و طالبات نے داخلہ لینا ہے، سول سروس کے امتحان میں شریک افراد نے کس مادر علمی میں جانا ہے؟
اس امتحان میں ملک بھر سے گریجویٹس شریک تھے، خواہ ان کا تعلق جیک آباد سے ہے یا شمالی علاقہ جات سے، وہ امیدوار میر پور خاص سے بھی ہو سکتا ہے اور اس کا تعلق کراچی سے بھی ہو سکتا ہے، ہر علاقہ کا موسم اور معروضی حالات مختلف ہیں، تاج برطانیہ کی انتظامیہ نے ہمیشہ موسم بہار ہی کو ہمہ قسم کے امتحانات کے لئے منتخب کیا ہے، جس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ ہی سردی، ہمارے پالیسی ساز بند کمروں میں بیٹھ کر پالیسی مرتب کرتے ہیں اس لئے وہ زمینی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں، امتحان کے انعقاد سے قبل اگر وہ متوقع امیدواروں سے رائے لے لیتے تو انھیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی، جن کا امتحان تھا اگر وہی فیصلہ سازی میں شریک نہیں تو ممتحن کو تو انکی پریشانیوں کا کیا علم ؟
ایک تو موسم کی شدت دوسرا اس بار سول سروس کے امتحان میں دو سیشن رکھے گئے ہیں، ایک دن میں امیدوار کو دو پرچے دینا تھے، دو گھنٹے کے وقفہ کے بعد دوسرا پرچہ شروع ہو جاتا تھا، اس وقت میں کھانا کھانا، نماز ادا کرنا، گھر سے امتحانی مرکز پہنچنا بھی شامل تھا، اوپر سے 47 پارہ کا سامنا بھی تھا۔
یہ بھی اسی ماحول میں پرچے دے رہے ہیں جس طرح انٹر کے طالب علم امتحان میں شریک ہیں، سول سروس کے امتحان کا تعلق امیدواران کے سنہری مستقبل سے ہے، مگر اس کی پروا کئے بغیر ایک کے دن دوسیشن کس بہترین منتظم کے ذہن کی اختراع ہو سکتی ہے۔ راوی اس بابت خاموش ہے۔
پوری دنیا میں امتحانی شیڈول، داخلہ جات، سینڈ اپ پیپر،پورا تعلیمی کیلنڈر برس ہا برس سے ایک ہی رہتا ہے، طلباء و طالبات کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی، ہمارے ہاں نت نئے شیڈول جاری کئے جاتے ہیں، امتحان دینے والے طلباء ہر روز کسی نئے امتحان سے گذرتے ہیں، اب کی بار ایک سیاسی جماعت نے لانگ مارچ کی کال اس موقع پر دی جب پورے ملک میں میٹرک کے امتحانات ہو رہے ہیں، یہ کونسی دانشمندی اور قومی خدمت ہے؟ انتظامیہ کو اس وجہ سے امتحانی شیڈول تبدیل کرنا پڑا۔
اس موسم ہی میں امتحانات کا انعقاد اگر ضروری ہے تو بڑے چھوٹے شہر میں ائر کنڈیشنڈ ہال تعمیر کر دیئے جائیں یا کم از کم شادی ہالوں میں امتحان منعقد کئے جائیں تو کافی حد تک بچوں کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے، اگر ہم یہ خواہش رکھیں کہ مقتدر کلاس کے بچے کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے سے ہمیں سہولیات میسر آئیں گی تو یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے۔