لاہور: پاکستان میں بھی سن اسکرین کا استعمال بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ عام لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ سن بلاک لگاکر چہرے کو سورج کی دھوپ سے محفوظ کرلیں گے۔
سن اسکرین خصوصی طور پر سورج کی تیز اور جلادینے والی دھوپ سے چہرے کو محفوظ رکھنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں، تاہم انہیں جسم کے دیگر حصوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں تو ویسے بھی کڑاکے کی گرمیاں ہوتی ہیں، جن میں سورج دن بھر آگ برساتا رہتا ہے، ایسے موسم میں جہاں لوگوں کی جانب سے دھوپ سے بچنے کے لیے چھتریوں، کپڑوں اور دیگر چیزوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے، وہیں سن اسکرین سے بھی اس کام میں مدد لی جاتی ہے۔
تاہم ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سورج کی آگ سے بچانے کا کام کرنے والے زیادہ تر سن اسکرین اس طرح دھوپ سے نہیں بچاتے جس طرح کمپنیز کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے۔
امریکا کے ملٹی نیشنل ادارے’انوائرومنٹ ورکنگ گروپ‘ (ای ڈبلیو جی) کی جانب سے حال ہی میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ 73 فیصد سن اسکرین اس طرح دھوپ سے محفوظ نہیں رکھتے، جس طرح سن اسکرین کی پیکنگ پراس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
ادارے کی جانب سے دنیا بھر کے عالمی برانڈز کے سورج کی دھوپ سے بچانے والے سن اسکرین جیل، سن اسکرین کریم اورسن اسکرین لوشنز کا جائزہ لیا گیا۔
ادارے نے سمندر کنارے، کھیلوں اور عام طور پر استعمال ہونے ہونے والے لوشنز اور جیل سمیت بچوں کے لیے تیار کیے گئے خصوصی سن اسکرینز کا جائزہ لیا۔
ادارے کی جانب سے سن اسکرینز کی پیکنگ پر کیے گئے دعووں کو سامنے رکھ کر ان کا تجزیا کیا گیا، اس بات کی کھوج لگائی گئی کہ جن اجزاء سے سن اسکرینز تیار ہو رہے ہیں، یہ دھوپ سے بچانے کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں، اور یہ بھی تحقیق کی گئی کہ کہیں یہ اجزاء نقصاندہ تو نہیں۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں