بھارت کی عدالت نے نہرو کے نواسے اندرا گاندھی کے پوتے کو مودی کو چور کہنے پر دو سال قید اور اسمبلی رکنیت سے محروم کر دیا، باقی تفصیلات اخبارات میں آ چکی ہیں۔ قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ میں ہتک عزت کا قانون موجود رہا۔ یہاں تک کہ رومن معاشرت میں الزام کی سزا موت تک جاتی تھی۔ ہر معاشرے میں سخت سے سخت سزا موجود رہی اور اب بھی موجود ہے۔ اسلامی معاشرت اور قانون میں تہمت کی سزا تو 80 درے ہے۔ باقی الزام کو تعزیر کے تابع کیا گیا ہے۔ اگر تعزیر کی آج کی دنیا میں وضاحت کریں تو یہ شوریٰ یا عدالت کی صوابدید ہے۔ موجودہ دور میں قانون سازی کر کے الزام کی مختلف سزائیں اور جرمانہ مقرر ہے۔ اسلامی قانون میں تو اس کی تعزیز کے تحت بعض صورتوں میں موت تک سزا بھی واجب ہے۔اس پر عملداری کے حوالے سے اس میں شخصیت، الزام، توہین اور ہتک کی نوعیت سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں Law of Torts کو سنجیدہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی عوام میں اس کی آگاہی پائی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جب جاتے ہیں یا اس میں رائج سول قوانین کی عملداری سنتے اور دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں حالانکہ یہ سبھی قوانین ہمارے ہاں موجود ہیں۔ ملاوٹ شدہ ناقص اشیا کی فروخت ہو، کسی کے گھر کی طرف غیر قانونی کھڑکی بنا لینا جس سے کسی کی پردہ داری میں مخل ہونا شامل ہو، قانون میں اس کا ریلیف موجود ہے۔ اگر اس کی عملداری عام ہو، عدالتی فیصلے آئیں تو ناجائز قبضوں اور پیسے دبانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ جعل سازی ذہن میں ہی دم توڑ جائے مگر جہاں وحشت اور بربریت برہنہ محو رقص ہو وہاں ان قوانین کی موجودگی سے آگاہی کیسے ممکن ہے؟ ابھی ہم صرف ہتک عزت تک ہی توجہ مرکوز رکھیں تو شاید نقطہ نظر بیان ہو سکے۔ ایک دیانتدار جسٹس عبدالمجید ٹوانہ (مرحوم) گوجرانوالہ میں سیشن جج تھے۔ وہ 501، 502، 506 ت پ کے مقدمہ گالی گلوچ اور قتل کی دھمکیاں، ہتک عزت کے فوجداری مقدمہ کی ضمانت قبل از گرفتاری کبھی کنفرم نہیں کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اس اقدام کا تدارک نہ کیا جائے رو چند ہفتوں بعد یہ مقدمہ قتل کے مقدمہ میں بدل چکا ہو گا۔ عمران نیازی ویسے تو فرماتے ہیں جب گھر سے نکلتا ہوں نیا مقدمہ بن جاتا ہے۔ اگر ہتک عزت کے فوجداری قانون کی عملداری ہو تو نیازی صاحب پر روزانہ کی بنیاد پر بیسیوں مقدمات قائم ہو سکتے ہیں۔ قومی سطح پر جھوٹ، دھوکہ دہی اور فراڈ کے مقدمات ہو سکتے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ
وعدہ خلافی کا کوئی تھانہ پاکستان میں ہوتا تو آئی ایم ایف بھی مقدمہ درج کرا دیتا۔اگر غیبت اور غیر موجودگی میں دشنام طرازی پر مقدمہ ہوتا تو بین الاقوامی رہنما بھی کراتے۔ یہی صورت حال کم و بیش تمام حکمران طبقوں کے افراد کی ہے۔ ملاوٹ کے حوالہ سے ایک عجیب واقعہ جو آج کیا کسی بھی زمانے کی دنیا میں دیکھنے کو نہ ملے گا، زمانہ جاہلیت میں بھی نہ ہو گا۔ میاں نوازشریف وزیراعظم تھے چودھری شجاعت حسین وزیر داخلہ تھے، ظاہر ہے پنجاب پر پیپلز پارٹی کا حق حکومت تو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ بھی ان کا تھا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ سے ملاوٹ کے خلاف کریک ڈاؤن ہو گا۔ میں حیران تھا کہ جب پہلے سے ملاوٹ کے خلاف قانون موجود ہے تو پھر عملداری کی تاریخ دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے فلاں تاریخ کے بعد کوئی قتل نہیں کر سکتا، زنا نہیں کر سکتا، ناجائز قبضہ نہیں کر سکتا بہرحال حکومت کے اعلان کے ساتھ ہی اکبری منڈی لاہور میں ہڑتال ہو گئی، ہڑتال دوسری منڈیوں میں بھی ہوئی ہو گی لیکن اکبری منڈی سر فہرست تھی۔ اس قدر موثر ہڑتال کہ حکومت کو اپنی ڈیڈ لائن واپس لینا پڑی۔ گویا ملاوٹ کرنے کے لیے ہڑتال کی گئی اور ڈیڈ لائن کی واپسی ملاوٹ کی اجازت کے مترادف تھی۔ سیاسی حوالے سے شیخ رشید، شیریں مزاری، طلال چودھری، فیاض چوہان، عمران نیازی، محترمہ بی بی شہید کے وقت میں میاں صاحب کی تقاریر، فواد چودھری، ایم کیو ایم کی قیادت، فیصل واوڈا کس کس کا نام لوں ان کی سیاسی زندگی کی تقاریر کا جائزہ لیں تو ہر ایک پر فوجداری ہتک عزت کا مقدمہ دائر ہو سکتا ہے بلکہ آپ یہ دیکھیں میاں شہبازشریف نے عمران خان کے خلاف 14 ارب دینے کے بیان پر دعویٰ کیا ہوا ہے جو فیصلہ کا منتظر ہے۔
آئین کے پہلے 8 سے 28 آرٹیکل ہی بنیادی حقوق کے متعلق ہیں جن میں آرٹیکل 14 انسانوں کے وقار، قانون کے تابع، گھر کی رازداری ناقابل تسخیر ہو گئی۔ اسی طرح ہتک عزت ڈیفمیشن آرڈیننس 2002 کے سیکشن 13 میں شہرت کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے مکمل بیان ہے۔ اسی طرح سیکشن 7 یا یوں کہہ لیں کہ پورا Defamation Ordinance ہے۔ آئین تعزیرات پاکستان ہے۔ یہ بنیادی حقوق سے بھی آگے کی بات ہے جس کو سلب کرنے کی سزا ہے۔ یورپ، امریکہ اور مہذب یا ترقی یافتہ ممالک میں ہم جب ملاوٹ، ہتک عزت، جھوٹ، بہتان کے مقدمات پر سزا اور جرمانہ سنتے ہیں تو ایسے حیران ہوتے ہیں جیسے یہ قوانین صرف انہی ممالک میں ہیں حالانکہ ویسے ہی قوانین بلکہ اسلامی حوالہ سے تو اس کو جرم ہی نہیں گناہ قرار دیا گیا ہے۔ آقا کریمﷺ کی حدیث طیبہ ہے، پوچھا گیا کہ آقاؐ کیا مسلمان بزدل ہو سکتا ہے۔ فرمایا، ہو سکتا ہے۔ بخیل ہو سکتا ہے۔ فرمایا، ہو سکتا ہے۔ جب یہ پوچھا گیا کہ آقاؐ مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے تو فرمایا، نہیں۔(مفہوم)۔ گویا ملت اور امت سے ہی باہر نکال دیا۔ جبکہ ادھر ہمارے حکمران طبقوں میں سیاسی زعما اور بیوروکریسی میں آکسیجن کم جھوٹ زیادہ ہے۔ لہٰذا ملکی، اسلامی، بین الاقوامی قوانین موجود ہیں آگاہی اور عملداری کا فقدان ہے جس دن لوگوں کو آگاہی ہو گئی عملداری ہو گئی۔ اس دن ناجائز قبضے لوگوں پر بہتان کا کلچر دم توڑ جائے گا مگر افسوس کہ انسان اور انسانیت کی توہین پھن پھیلائے معاشرت کو ڈس رہی ہے اور بس توہین عدالت رہ گئی ہے، باقی کسی کی کوئی توہین نہیں۔ عمران خان کے کلٹ نے معاشرت کا جو نقصان کیا وہ کبھی بحال نہ ہو گا۔ دلیل پر گالی فوقیت لے گئی۔ لا آف ٹارٹس سول قانون اور ہتک عزت کے قانون پر دہشت گردی سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہی حالات کا تقاضا ہے۔ بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو رائے سازی کے لیے ماہر سمجھتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عمران خان وہی بیان دیتا ہے جو جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے جواب میں سچ آتا ہے، موضوع بنتا ہے۔ یہ موضوع اگر عمران خان کی مقبولیت ہے تو اس کا توڑ اس وقت ہو جائے گا جب مریم نواز، میاں نوازشریف اور بلاول بھٹو میدان میں اتریں گے۔ ان کا ووٹر دیکھے گا کہ یہ لوگ ہمارے لیے آ گئے ہیں۔ رہی بات مقبولیت کی، اس کا ووٹر متحرک اور بھیانک قسم کا جنونی ہے۔ یہ شور مچا رہا ہے، جھوٹ بولتا ہے، بار بار جھوٹ بولتا ہے، اتنا جھوٹ بولتا ہے کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ مینار پاکستان پروگرام پر شور مچانے والے اس کا 90 دن کا پروگرام جس میں 50لاکھ گھر، کروڑوں نوکریاں اور 5 سال بعد پاکستان یورپ سے زیادہ خوبصورت ہو گا، بھول گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ایک سوسائٹی یا معاشرت کی اساس کو برباد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ چند ہفتوں میں فیصلہ ہو جائے گا کہ طاقت کا مرکز کدھر ہے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی طاقت کا سرچشمہ عوام کے بجائے کسی اور کو سمجھنے لگی ہیں جب تک سیاسی لوگ عوام کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے جمہوریت صرف کتابوں میں رہے گی۔
مائیک ٹائسن نے ٹوئٹ کیا تھا کہ سوشل میڈیا اور ٹوئٹر ایسی شے ہے کہ سامنے بکواس کرنے والے کو بندہ مکا Punch بھی نہیں مار سکتا۔