کہا جارہا ہے کہ الیکشن کرانے کے پیسے نہیں ہیں مگر دوسری جانب صرف پنجاب میں 50ارب روپے سے زائد کا آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے، اور وفاق کی سطح پر ڈیڑھ سو ارب روپے کا یوتھ ڈویلپمنٹ نامی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ اب اس میں دیہاڑیاں لگانا مقصد ہے یا واقعی عوامی خدمت یہ تو بعد میں معلوم ہو گا جب انکوائریاں کھلیں گی۔ مگر یہ بات تو طے ہے کہ معذرت کے ساتھ حکومت کی یہ غلط بیانی تو ثابت ہوگئی کہ الیکشن کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ خیر اگر ہم بات کریں رمضان ریلیف پیکیج کی تو وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی طرف سے اعلان کردہ رمضان ریلیف پیکیج کے تحت غریب اور مستحق کم آمدنی والے خاندانوں میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، مفت آٹا فراہمی کی اس سہولت کے لیے 25 شعبان المعظم سے 25 رمضان المبارک کی مدت مقرر کی گئی ہے اس دوران فی خاندان دس کلو آٹے کے تین تھیلے مہیا کئے جائیں گے۔ مفت آٹے کی اس سکیم سے مستفید ہونے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر ہونا لازمی ہے اور آٹا کے حصول کے خواہش مند ہر شخص کو اپنا شناختی کارڈ نمبر 8070 پر ایس ایم ایس کرنا ہو گا۔ جہاں سے تصدیق کے بعد ہی وہ شخص آٹے کے تھیلے کے حصول کا حق دار قرار پائے گا مستحقین کے لیے آمدن کی حد 60 ہزار روپے ماہوار سے کم رکھی گئی ہے، حکومت کے اعلان کے مطابق صرف پنجاب میں اس کام کے لیے 53 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جب کہ مستحقین کو آٹا کی فراہمی کے لیے بیس ہزار سیل پوائنٹس، یوٹیلٹی سٹورز، ٹرکنگ پوائنٹس اور پی ایس پی اے سے رجسٹرڈ کریانہ فروشوں کا تعین کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنے اس اقدام کو تاریخ ساز قرار دیا جا رہا ہے۔
مگر اس میں متعدد ایسے سقم موجود ہیں جن کے سبب عوام کے لیے یہ حکومتی پیشکش سہولت کے بجائے اذیت اور شدید نوعیت کی زحمت بن رہی ہے۔ اس ضمن میں اولین قابل اعتراض پہلو تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی اس سکیم کو صرف پنجاب اور صوبہ خیبر تک محدود رکھا گیا ہے سوال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کیا صرف ان دو صوبوں کے وزیر اعظم ہیں ملک کے دیگر حصوں کے غریب اور مستحق لوگوں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ان دونوں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں ان کے وزرائے اعلیٰ نے اپنی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کی ہدایت پر تحلیل کر رکھی ہیں اور ان دونوں صوبوں میں کسی بھی وقت انتخابات کرائے جا سکتے ہیں اگرچہ حکومتی تاخیری حربوں کے باعث الیکشن کمیشن نے پنجاب میں تیس اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کے باو جود انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کر کے ملک میں ایک آئینی و سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے مگر چونکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس ضمن میں واضح حکم الیکشن کمیشن کو پہلے ہی جاری کر چکی ہے اور توقع ہے کہ الیکشن کمیشن کے التوا کے اعلان کے باوجود عدالت عظمیٰ کی مداخلت اور حکم کے نتیجے میں حکومت اور الیکشن کمیشن بہرحال ان دو صوبوں میں انتخابات کرانے پر مجبور ہو سکتے ہیں اس لیے مفت آٹا فراہمی کی سکیم پنجاب اور صوبہ خیبر کے عوام کے لیے سہولت نہیں، سیاسی رشوت کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ صرف دو صوبوں کے لوگوں تک محدود رکھ کر ملک کے باقی حصوں کے عوام سے امتیازی اور سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھنے کا آخر کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
بہرحال حکومت کے بلند بانگ دعووں اور نہایت ناکافی انتظامات کی وجہ سے یہ سکیم غریب و نادار اور مستحق لوگوں کے لیے راحت اور سہولت کے بجائے ذلت و خواری کا ذریعہ بن چکی ہے، جب سے یہ سکیم روبہ عمل آئی ہے ہر روز مفت آٹا کے حصول کی کوشش میں سرگرداں دو تین افراد کے جان سے جانے اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ سکیم کو شروع ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو ہے مگر تاحال حکومتی مشینری بد انتظامی کے خاتمہ میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ صرف جمعۃ المبارک کے اخبارات کی اطلاع ہے کہ جمعرات کے روز مفت آٹا لینے گھر سے نکلنے والے دو افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ چارسدہ میں آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے ایک معمر شخص شیر افضل جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور درجنوں مرد و خواتین زخمی ہو گئے۔ بنوں میں آٹا تقسیم پوائنٹ پر ٹرک کی ٹکر سے دیوار لوگوں کی قطار پر گر گئی جس سے ایک شخص جاں بحق اور چار زخمی ہو گئے۔ سرائے مغل میں مفت آٹے کے حصول کی خاطر جمع خواتین بدنظمی کے سبب آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں جن میں سے ایک بے ہوش ہو گئی اسی طرح کے کئی ایک واقعات اب تک سامنے آ چکے ہیں یوں یہ مفت آٹا سکیم لوگوں کے لیے راحت و آرام کے بجائے وبال جان بن چکی ہے۔ فلور ملز کی جانب سے تھیلوں میں کم آٹا کی فراہمی کے ذریعے بوگس اضافی سپلائی اور شناختی کارڈوں کے غلط استعمال کے ذریعے بھی ناجائز مفاد اٹھایا جا رہا ہے، مبینہ طور پر مستحق افراد کے اصل شناختی کارڈ یا ان کی نقول حاصل کر کے غیر متعلقہ ا ور غیر مستحق لوگوں کو مفت آٹا دیا جا رہا ہے جو اسے مہنگے داموں بازار میں فروخت کر رہے ہیں۔ پنجاب میں کم آٹا اور جعلی اعداد و شمار فراہم کرنے کے الزام میں بعض ملوں کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں، یہ بات بھی عام دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ مستحق لوگ جب مفت آٹا مراکز پر اپنا شناختی کارڈ لے کر جاتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے نام پر تو پہلے ہی آٹے کا تھیلا جاری ہو چکا ہے۔ اس طرح غریب اور ان پڑھ خواتین و حضرات کی لا علمی کا بھی بھر پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو دیئے جانے والے مفت سرکاری آٹے کا معیار بھی ناقص بتایا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ طرح طرح کی خرابیوں اور شکایتوں کا غریب لوگوں کو سامنا ہے، بدعنوان عناصر اس سکیم کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ وفاقی حکومت قومی خزانے سے خطیر رقوم تو اس مد میں خرچ کر رہی ہے مگر خرابیوں پر قابو پانے میں یا تو سنجیدہ نہیں یا مکمل طور پر نا اہل اور ناکام ثابت ہوئی ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ سفید پوش طبقے کا بھرم رکھا جائے، اْنہیں اگر مراعات دینی ہی ہیں تو باعزت طریقے سے دی جائیں، ورنہ خوار نہ کیا جائے، مہنگائی کو کم کیا جائے، ملک کی معیشت کو سنبھالا دیا جائے، کسانوں کو مراعات دی جائیں تاکہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہو۔ سمال انڈسٹری کو فروغ دیا جائے تاکہ ہم غیر ضروری امپورٹ سے بچ سکیں۔ اگر یہ کام نہیں کرنے تو ڈرامے بند کریں اور الیکشن کرادیں، اللہ اللہ خیر صلہ!
سفید پوش طبقے کو بھکاری تو نہیں بنایا جا رہا؟
10:54 AM, 28 Mar, 2023