پاکستان میں جہاں ہماری روزمرہ زندگی میں سوشل میڈیا کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے وہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ سائبر کرائمز، فنانشل فراڈ، جعلی پروفائل، ہتکِ عزت، ہیکنگ اور خصوصاً خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں اس طرح کے کیسز تیزی سے عام ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں بالخصوص خواتین کے ناساز ماحول اور قانون کی عملداری نا ہونے کی وجہ سے حالات زیادہ مشکل ہیں۔ ہمارے ہاں ہر سال رجسٹرڈ ہونے والے سائبر کرائم کے کیسز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ایک لاکھ سے زائد کیس رجسٹرڈ ہوئے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سائبر کرائم کے واقعات میں گزشتہ تین سال میں تقریباً 83 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مالی نوعیت کے فراڈ سرفہرست ہیں۔ بہت سے متاثرہ افراد عدالت کے چکر اور بات بڑھانے کے ڈر سے شکایت ہی درج نہیں کراتے جس کی وجہ سے رجسٹرڈ شکایتوں کی تعداد رونما ہونے والے واقعات کی نسبت کافی کم ہے۔ سائبر کرائم ایسے مجرمانہ فعل کے ارتکاب کو کہا جاتا ہے جس کا ہدف فردِ واحد، ایک تنظیم، گروپ، ادارہ اور ملک ہو جسے باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنا کر ذہنی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی طور پر بالواسطہ یا بلاواسطہ یا دونوں طرح سے نقصان پہنچایا جائے یا پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان میں تقریباً ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ شخص روزمرہ کی بنیاد پر انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے۔ دنیا انٹرنیٹ کو تعلیم، کاروبار اور مثبت سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت اور ادارے باقاعدہ سائبر کرائم کے حوالے سے آگاہی مہم چلاتے ہیں جن کے باعث ان ممالک میں انجانے میں ہونے والے کرائم کی شرح بہت کم ہے، جبکہ پاکستان میں لوگ ایک دوسرے کے گھر، دفاتر، شاپنگ مال اور راستے میں چلنے تک کی پرائیویٹ تصاویر اور ویڈیو بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ بہت سارے لوگ شعور نہ ہونے کی وجہ سے ایسے انتہائی اقدام اٹھا لیتے ہیں، جیسے آج کل گلی محلے کے نوجوان اسلحے کے ساتھ ڈان نمبر ون کی ایکٹنگ کرتے نظر آتے ہیں بلکہ جوانوں کے ساتھ کئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ راہ چلتے خواتین اور بزرگوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کی ویڈیو بنا کر خود کو ٹِک ٹاک سٹار سمجھنا ہمارے معاشرے کا نا سور بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے سیاست دان بھی ٹِک ٹاکرز کے ساتھ ویڈیو بنا کر سستی شہرت کی اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ شومئی قسمت ہمارے سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز اپنے لیڈران کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان سے دو ہاتھ آگے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سارے سائبر کرائمز کا نتیجہ کسی قیمتی جان کے زیاں کی صورت سامنے آتا ہے۔ ابھی حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والا عثمان مرزا کیس ہو یا مینارِ پاکستان کا واقعہ یا پھر سانحہ سیالکوٹ ہو، تقریباً سب ہی ہائی پروفائل کیسز میں سائبر کا استعمال ہو رہا ہے۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ایف ۔ آئی۔ اے کو سامنے لا کر باقاعدہ پی۔ ٹی۔ وی اور نجی چینلز پر آگاہی کے لیے پروگرام ترتیب دیے جانے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر تشہیر کی جائے۔ اس میں نوجوان نسل کو انٹرنیٹ کے مثبت استعمال سے آگاہی دی جائے تاکہ سائبر کرائم کے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔ ریاست کا کام ہے کہ نوجوان نسل میں اس کے متعلق آگاہی اور شعور اجاگر کرنے کے لیے ادارے کو سیمینار مرتب کرانے کے احکام صادر کرے، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر باقاعدہ عوام کی آگاہی کے لیے ایک پلان ترتیب دیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیا اور کرایا جائے، تب ہی جا کر معاشرے میں سدھار دیکھنے کو ملے گا۔ ورنہ ایوان ِ پاکستان کے دروازے اور سرکاری اداروں کا وقار ایک دن اتنا کمزور ہو جائے گا کہ اسے بحال کرنے میں شاید دہائیاں لگ جائیں۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیز، ہسپتال، شاپنگ مال، سرکاری دفاتر، گلی محلے یہاں تک کہ گھریلو اور دفاتر کی ویڈیوز بھی ہر دوسرے دن منظرِ عام پر آتی ہیں۔ نوجوان نسل کو چاہیے کہ کسی بھی جگہ اخلاق سے گری ہوئی ویڈیو ہرگز نا بنائیں، یہ وقتی خوشی یا انٹرنیٹ کی ریٹنگ تو دے سکتی ہے لیکن اس سے نا صرف دوسرے نوجوان غلط اثر لے سکتے ہیں بلکہ معاشرے میں بگاڑ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں آپ کے لیے شرمندگی اور قانونی پیچیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔ کوئی بھی ایسا خلافِ قانون عمل جو انٹرنیٹ یا موبائل کے ذریعے کیا جائے، چاہے وہ بذریعہ کال دھمکی آمیز الفاظ ہوں، کسی بھی قسم کے غلط پیغامات ہوں، نفرت انگیز مواد ہو، الیکٹرانک جعل سازی ہو، قانونی تقاضوں کے بر خلاف سم کارڈ کا جاری کرنا ہو، کسی کے بنک اکاؤنٹ سے چھیڑ چھاڑ کرنا، کسی کو مسلسل غیر ضروری پیغامات بھیجنا، مختلف سکیموں کا جھانسہ دے کر رقم بٹورنا، کسی کی پرائیویٹ تصاویر یا ویڈیو بنانا اور ان کی تشہیر کرنا، کسی کا ذاتی اکاؤنٹ ہیک کرنا، آن لائن کاروبار یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہو، کسی فرد کی ذات کے متعلق غلط پروپیگنڈا کرنا سب سائبرکرائم ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ سائبر کرائم کے موضوع کے بارے میں معاشرے میں آگہی، تعلیم و تربیت کی جائے۔ مؤثر قوانین بنائے جائیں، ہمارے تعلیمی اداروں میں اس کے نقصانات سے آگاہی دی جائے۔ موصول ہونے والی شکایات پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے مجرموں کو سزائیں دی جائیں۔ اس وقت معاشرے کو مضبوط بنانے کے لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان کاموں کے علاوہ دیگر سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں۔ ایک بہترین معاشرہ جرائم سے پاک ہو کر ہی امن و امان کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔۔ آمین