روس اور یوکرین کو دنیا کی فوڈ باسکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں ممالک مل کر پوری دنیا کو ایک تہائی گندم فراہم کرتے ہیں۔ افریقہ، جنوبی امریکا اور ایشیا کے کئی ممالک کا تقریباً انحصار ان دونوں ممالک سے درآمد شدہ گندم اور سورج مکھی کے بیج پر ہے۔ اسوقت روس اور یوکرین کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم ترین شعبہ خوراک کا ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے معاشی و سماجی ترقیاتی شعبے کے چیف اکانومسٹ میکسیمو ٹوریرو نے ایک انٹرویو میں دنیا کو خبردار کیا ہے روس۔یوکرین تنازع نے یوکرین میں اناج کی فصلوں اور برآمدات کو متاثر کیا ہے۔ اگر اسے بروقت اور دانشمندی سے حل نہ کیا گیا تو دنیا کو خوراک کی فراہمی میں طویل المدتی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسرا بڑا اہم معاملہ توانائی کی سپلائی میں کمی کا ہے۔ یوکرین میں روسی حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے منفی اثرات اب عالمی سطح پر نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں گندم اور سورج مکھی سے تیار کیے جانے والے تیل کی قلت ہو چکی ہے۔ بعض ممالک میں قحط کا بھی خطرہ ہے۔ مزید اگر روس سے توانائی کی سپلائی کم ہو جاتی ہے یا روس کی توانائی اور کھاد کی برآمدات پر پابندیوں سے سپلائی متاثر ہوتی ہے تو مستقبل میں کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے دنیا کو خوراک کی فراہمی میں حقیقی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی طرح غذائی اجناس کی درآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔ گندم اور پام آئل پاکستان کی غذائی اجناس میں سب سے زیادہ حجم رکھتی ہیں۔ پاکستان روس اور یوکرین دونوں ممالک سے گندم درآمد کرتا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کی غذائی اجناس کا درآمدی بل 8 ارب ڈالر سے زائد تھا۔ پاکستان پام آئل درآمد کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ اگرچہ پام آئل اور ملائیشیا اور انڈونیشیا سے درآمد کیا جاتا ہے مگر روس اور یوکرین سے سورج مکھی کے بیج کی سپلائی منقطع ہو جانے کی وجہ سے خوردنی تیل کے دیگر ذرائع کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ پاکستان یہ اجناس بھی زائد نرخوں پر درآمد کرنے پر مجبورہے۔ بقول وزیر اعظم عمران خان کہ پاکستان میں ریکارڈ فصلیں ہو رہی ہیں۔ لیکن منافع خوروں اور کمیشن ایجنٹوں کی ملی بھگت سے
خوراک ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو سمگل ہو جاتی ہے۔ جن کی وجہ سے اجناس کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید مہنگی اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ رواں سیزن کے لیے گندم کی شاندار فصل کی توقع کی جا رہی تھی مگر کھادکی قلت کی وجہ سے فصل اندازے سے کم رہنے کی توقع ہے۔ اسی لیے حکومت 2 ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، لیکن اس سال گندم درآمد کرنا آسان نہیں ہو گا کیوں کہ روس نے اگست 2022ء تک غلہ برآمد نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک طرف پاکستان میں دکانوں پر غذائی اجناس تو موجود ہیں مگر لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ لہٰذا وہ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ پاکستان میں مہنگائی میں مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں غربت و افلاس کے مارے عوام کئی برس سے متواتر مہنگائی کا ایٹم بم برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی نے وہ ظلم ڈھائے ہیں کہ اس کے اثرات نسل در نسل دیکھے جائیں گے۔ پاکستان میں مہنگائی خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ کرونا کے دوران دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح 4 سے 5 فیصد کے درمیان تھی جبکہ پاکستان میں 11 فیصد سے بھی زائد رہی۔ اس وقت بھی پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا سے دگنی ہے۔ مہنگائی کی بڑی وجہ مرکزی بینک کی وہ پالیسیاں ہیں، جن کی وجہ سے شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھنے کی وجوہات صرف بیرونی نہیں ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجہ داخلی سسٹم کی خرابی ہے۔ آپ صرف سبزی کی دکان پر جائیں اور زیادہ قیمت پر سوال اٹھائیں تو دکاندار کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب ’تبدیلی‘ کے کرشمے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی اشیا یا بننے والی چیزیں کیوں مہنگی ہیں۔ چینی بحران میں خود حکومت اعتراف کر چکی ہے کہ مافیا نے اس دوران صارفین کی جیبوں پر 600 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا۔ رمضان کی آمد آمد ہے ابھی سے قیمتیں بڑھانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سوچیں 22 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ میں 30 دن میں کتنے کا ڈاکہ ڈالا جائے گا۔ شاید کئی سو ارب روپے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟ ذخیرہ اندوز کیسے کام کرتے ہیں؟ وہ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کیسے کرتے ہیں؟ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا حل بڑا آسان ہے اور پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے جس طرح جدید دنیا نے کیا ہے۔ دنیا نے مارکیٹ کھلی چھوڑ کر اس میں مسابقت کا رجحان پیدا کیا ہے جو پاکستان میں بالکل نہیں ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے۔ جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے 10 گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کو یا تو اپنی بڑی بڑی سپر مارکیٹ چینز بنانا ہوں گی یا پھر وال مارٹ، ایسڈا، ٹیسکو اور آلڈی کی طرح کے انٹرنیشنل سپر سٹورز کے لیے مارکیٹ کھولنی چاہیے۔ یہ سپر سٹورز کیسے کام کرتے ہیں؟ یہ اشیائے خور و نوش بہت بڑی تعداد میں خریدتے ہیں اور عموماً براہِ راست کسان سے یا فیکٹری سے مال اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں وہ چیزیں آڑھتیوں سے بھی سستی ملتی ہیں۔ پھر اگر ایک ہی شہر میں پانچ دس بڑے سپر سٹورز کی چینز موجود ہوتی ہیں تو ان میں مقابلے کی فضا ہوتی ہے اور ہر کوئی صارف کو سستی سے سستی اشیا فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی خود بخود کنٹرول رہتی ہے۔ اس وقت کئی اشیا پر 17 فیصد تک جی ایس ٹی نافذ ہے۔ صارف کی جیب سے یہ پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں مگر سرکاری خزانے تک اس 17 فیصد میں سے چار فیصد ہی پہنچتا ہے۔ باقی انڈر انوائسنگ اور مانیٹرنگ نہ ہونے کہ وجہ سے چوری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں لاکھوں کریانہ سٹورز ہیں جنہیں فیکٹری والے روزانہ کی بنیاد پر مال سپلائی کرتے ہیں اور ان سے کیش کی صورت میں وصولی کرتے ہیں۔ اس طرح اگر ایسے سپر سٹورز کو لائسنس دیے جائیں تو مہنگائی کا خود بخود خاتمہ بھی ہو جائے گا اور جی ایس ٹی کی مد میں اربوں روپے کی چوری بھی رک جائے گی۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور تمام تر بد انتظامیوں کے باوجود بھی ملک میں غذا کی کوئی قلت نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کی عیاشیوں، بدعنوانی اور بد انتظامی نے عوام کو مہنگائی کا عذاب مسلسل جھیلنے پر مجبور کر رکھا ہے۔