جدہ :مکہ مکرمہ ریجن میں سعودی عرب کی مذہبی پولیس "ہیئۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر" کے سابق سربراہ شیخ احمد الغامدی کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بیان کہ "عبایہ پہننا لازم نہیں بلکہ لباس کا حیادار ہونا ضروری ہے"، یہ بیان واضح اور اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔
سینئر علماء کے اس حوالے سے فتاوی موجود ہیں اس مزید وضاحت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
الغامدی کے مطابق سیاہ رنگ اسلامی شریعت کی جانب سے منظور شدہ کوئی رنگ نہیں ہے بلکہ یہ بنیاد پرستوں کی بیداری تحریک "صحوہ" کی جانب سے مخصوص فتوؤں سے فائدہ اٹھا کر مسلط کیا گیا تا کہ مملکت میں خواتین کے عبایا کی علامت بن جائے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے الغامدی کا کہنا تھا کہ عبایا کا مقصد یہ ہے کہ عورت کا ظاہر حیا دار نظر آئے اور اس کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ سیاہ رنگ کا ہی ہو۔ اگر عورت کوئی ایسا کپڑوں کے اوپر کوئی ایسا لباس (بڑی چادر وغیرہ) زیب تن کرتی ہے جو عبایا کی طرح بے پردگی سے بچائے تو مقصد پورا ہو گیا۔
مذہبی پولیس کے سابق سربراہ نے واضح کیا کہ عبایا کی ہیئت، ڈیزائن اور رنگ کے حوالے سے اسلام کی کوئی مخصوص تعلیمات نہیں ہیں۔ اس کا مقصد حیا اور پردہ ہے لہذا رنگ اور نوعیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔الغامدی نے بتایا کہ عبایا میں سیاہ رنگ کے داخل ہونے کی تاریخ کا آغاز عثمانی دور کے اواخر میں ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں خواتین سیاہ کے علاوہ دیگر رنگوں کے لباس سے بھی پردہ کیا کرتی تھیں۔
ہمارے اس عہدِ حاضر میں صحوہ تحریک کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں خواتین کے پردے کے لیے مخصوص رنگ کا تصور بٹھایا گیا۔ قرآن کریم میں باہر نکلنے والی خواتین کے لیے پردے سے متعلق جو آیت وارد ہوئی ہے اس میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ "جِلباب" (اپنے جسموں کے گرد لپٹی ہوئی چادر وغیرہ) کو پیشانی پر سے آگے کو لٹکا لیا کریں تا کہ ان کے چہرے کی بے پردگی نہ ہو۔ لہذا جلباب کی کوئی مخصوص صورت نہیں ہے۔