لندن :دنیا بھر کی حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں سے آپ کی ذاتی معلومات چھپی نہیں رہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی نے آپ کی جاسوسی آسان کردی ۔
برطانیہ کے معروف تعلیمی ادارے ’ آکسفورڈ یونیورسٹی‘ کی پروفیسرکاریسا ویلز نے خبردار کیا ہےکہ اسمارٹ ڈیوائسز کے ذریعے روزمرہ زندگی کی معلومات، رازداری اور سب کچھ اب ٹیکنالوجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہے،کوئی بھی ہیکر چھوٹی سی واردات سے کسی کے بھی ذاتی ڈیٹا تک پہنچ سکتا ہے۔
برطانوی پروفیسر کا کہنا ہے کہ ذاتی معلومات محفوظ کرنے کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ سو کر اٹھتے ہیں، لیکن اگر آپ نے اسمارٹ واچ پہن رکھی ہے یا موبائل فون سرہانے ہے تو حرکات و سکنات اور انتہائی نجی معاملات کا ڈیٹا رات کو بھی جمع ہوتا رہتا ہے۔
گھر کے دروازے پر لگی جدید گھنٹی خود کار طریقے سے گھر آنے والے مہمانوں کی تصاویر بھی اکھٹی کرتی ہے۔
اسمارٹ ٹی وی نہ صرف یہ ڈیٹا جمع کرتا ہے کہ آپ کب اور کیا دیکھتے ہیں بلکہ اگر پرائیویسی پالیسی پڑھنے کا وقت ملے تو پتہ چلے کہ ٹی وی آپ کی گفتگو سنتا، محفوظ رکھتا اور اسے آگے بیچنے کا حق رکھتا ہے جس کی منظوری اسے خود آپ نے پرائیویسی پالیسی کو بغیر پڑھے قبول کرکے دی ہوتی ہے۔
برطانوی پروفیسر نے مزید لکھا کہ خفیہ ایجنسیاں برطانیہ کی ایم آئی فائیو اور امریکا کی سی آئی اے وغیرہ کسی کے بھی بند ٹیلی وژن تک سے اُس کی حرکات و سکنات اور گفتگو ریکارڈ کرسکتی ہیں۔
یہی کام ایمیزون کی ڈیجیٹل اسسٹنٹ ’الیکسا‘ اور گوگل کے ’نیسٹ‘ سے بھی لیا جاتا ہے۔
فیس بک پر شیئر کی گئی تصویر یا خیالات کا اظہار اور گوگل سرچ پر لکھےگئے الفاظ کا سارا ڈیٹا ’آن لائن یادداشت‘ میں محفوظ ہوتا رہتا ہے، اس میں آئی پی ایڈریس اور لوکیشن بھی شامل ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا جاچکا ہے کہ ’فیس بک‘ نے عوام کی زندگیوں میں 'ڈجیٹل گینگسٹر'کا کردار اپنا لیا ہے۔
کورونا وبا کے دوران دنیا کی زیادہ آبادی کا انحصار زوم جیسی ایپلی کیشن پر بڑھا ہے، یعنی مزید زیادہ لوگوں کا ڈیٹا ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔