اسلام آباد: وزیراعظم کے قریبی دوست اور سابق معاون خصوصی برائے اوور سیز پاکستانی زلفی بخاری نے ایک مرتبہ پھر اسرائیل کا خفیہ دورہ کرنے کی خبروں کو جعلی قرار دیدیا۔
زلفی بخاری نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'مذاق کی بات یہ ہے کہ پاکستانی اخبار 'اسرائیلی نیوز ذرائع' کی بنیاد پر کہہ رہا ہے کہ میں اسرائیل گیا جبکہ اسرائیلی اخبار 'پاکستانی ذرائع' کی بنیاد پر کہہ رہا ہے کہ میں نے اسرائیل کا دورہ کیا، تعجب ہے کہ یہ خیالی پاکستانی ذریعہ کون ہیں'۔
DIDNOT go to Israel.
— Sayed Z Bukhari (@sayedzbukhari) June 28, 2021
Funny bit is Pakistani paper says I went to Israel based on "Israeli news source" & Israeli paper says I went to Israel based on a “Pakistani source”-wonder who this imaginative Pakistani source is????
Apparently, I’m the only one who was kept out of the loop. https://t.co/bcRO3osWMk
انہوں نے کہا کہ 'بظاہر صرف میں وہ شخص تھا جو کسی الزام سے بچا ہوا تھا'۔
زلفی بخاری کے علاوہ وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد نے بھی ان دعوؤں کو مسترد کیا۔
A propaganda fake news shared by an Israeli acc & propagated by the usual lot again.@sayedzbukhari had already clarified it last yr tht he was never sent by Govt to israel.This Israel-India-Pak Fake news peddlars network is getting so boring & predictablehttps://t.co/3EZFzT2y2i pic.twitter.com/BLoKBgY8y3
— Dr Arslan Khalid (@arslankhalid_m) June 28, 2021
انہوں نے کہا کہ 'زلفی بخاری نے گزشتہ سال واضح کیا تھا کہ انہیں کبھی حکومت نے اسرائیل نہیں بھیجا، یہ اسرائیل ۔ بھارت ۔ پاکستان جعلی نیوز پیڈلرز کا نیٹ ورک بہت بورنگ اور قابل پیش گوئی ہو رہا ہے'۔
انہوں نے میڈیا سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ تھوڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور جعلی خبروں کو فروغ نہ دے۔ آخری مرتبہ جب یہ پروپیگینڈا کیا گیا تھا تو زلفی بخاری نے نہ صرف اسے مسترد اور قانونی نوٹس بھیجا تھا بلکہ اسے رپورٹ کرنے والے ادارے مڈل ایسٹ مانیٹر نے معذرت بھی کی تھی'۔
Our media ppl shld show a little maturity & not promote fake news.The last time when this same propaganda was run, not only did @sayedzbukhari deny & sent a legal notice but the Middle East Monitor who reported it also had to apologize for the fake news. https://t.co/jUNmfQubaF pic.twitter.com/M4a02cmeH3
— Dr Arslan Khalid (@arslankhalid_m) June 28, 2021
خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں انہوں نے اسی طرح کی رپورٹس مسترد کی تھیں اور دعویٰ کیا تھا کہ نومبر میں مبینہ دورے کے وقت ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے ساتھ تھے۔
نجی چینل کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ان افواہوں کا اس نیوز رپورٹ کے بعد آغاز ہوا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے امریکا سے دورے کی منظوری کے بعد نومبر 2020 میں تل ابیب ایئرپورٹ پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے نامعلوم مشیر کو اسرائیل کی وزارت خارجہ لے جایا گیا جہاں انہوں نے متعدد سیاسی عہدیداران اور سفارت کاروں سے ملاقات کی اور پاکستان کے وزیر اعظم کا پیغام ان تک پہنچایا۔ چونکہ زلفی بخاری برطانوی شہری بھی ہیں اس لیے سوشل میڈیا پر کئی افراد نے یہ قیاس آرائی شروع کردی کہ یہ رپورٹس ان سے متعلق ہیں۔
یہ معاملہ عبرانی اخبار 'اسرائیل ہایوم' میں نیوز رپورٹ شائع ہونے کے بعد آج ایک مرتبہ پھر منظر عام پر آیا، جس میں اسلام آباد کے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مبینہ دورے کا ذکر کیا گیا ہے۔
ہاریتز اخبار کے اَوی اسکارف نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق زلفی بخاری نے انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے سربراہ یوسی کوہن سے ملاقات کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیوز رپورٹ میں 'اسلام آباد کے ذرائع' کا حوالہ دیا گیا ہے اور اسے اسرائیلی ملٹری سینسر کی اجازت کے بعد شائع کیا گیا ہے۔