یہ صرف زبانی کلامی باتیں نہیں ہیں۔ واقعی اس سال پنجاب کے کھیتوں نے سونا اگلا ہے۔ رواں سال گندم کی پیداوار میں 8 فیصد، چاول میں 28 فیصد اور گنا میں 31 فیصد ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ سارا کریڈٹ وزیراعظم پاکستان کو جاتا ہے۔ انہوں نے زرعی ایمرجنسی پروگرام شروع کیا ہے۔ جس کے تحت ریکارڈ فصل دینے والے کسانوں کو انعام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طرح سے پنجاب بھر کے 36 اضلاع میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ میں نے بھی بہاولپور کے ایک مقامی ہوٹل میں کسانوں کے لیے منعقدہ تقریب تقسیم انعامات میں شرکت کی۔ جس میں ڈپٹی کمشنر بہاول پور عرفان علی کاٹھیا، ڈائریکٹر زراعت جمشید خالد، ڈپٹی ڈائریکٹر محمد شفیق، زرعی ماہرین اور زمیندار بھی شامل تھے۔ جس وقت میں گندم کی پیداوار میں اللہ کے فضل و کرم سے حکومت کی مربوط زرعی پالیسی کے نتیجے اور اپنی شب و روز کی سخت محنت کے بل بوتے پر ریکارڈ بنانے والے خوش نصیب کسان کو انعام دے رہی تھی۔ تو اس کی آنکھوں میں بے پایاں خوشی صاف جھلک رہی تھی۔مجھے بھی مسرت ہوئی۔ اس موقع پر میرے دل نے گواہی دی کہ یہی ہمارے ہیرو ہیں۔ سارا دن مٹی کے ساتھ مل کر مٹی کو سونا بنانے والے کاشتکاروں کو سال میں ایک دن وی آئی پی پروٹوکول ضرور دیا جائے بلکہ یوم عظمت کاشتکار منعقد ہونا چاہئے۔ جس میں کاشتکاروں کی محنتوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ جو ملک میں غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے موسموں کی سختیاں جھیل کر سارا سال انتھک جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ میں اس سلسلے میں حکومت تک تجویز پہنچانے کی کاوش کروں گی۔ تاہم ضلع کی سطع پر ڈپٹی کمشنر کو کاشتکاروں کے ساتھ مل کر کھانا ضرور کھانا چاہیے۔ اس سے نا صرف ان کا حوصلہ بلند ہو گا بلکہ زراعت کے شعبے میں ہر لحاظ سے برکت بھی ہو گی۔ ویسے تو ڈپٹی کمشنر منسٹروں کو پروٹوکول دیتے ہیں انہیں باہر تک چھوڑنے آتے ہیں۔ یہی عزت ہمارے کامیاب کاشکار کا بھی حق ہے۔ بہاولپور تقریب میں تین قسم کے کسانوں کو انعامات دیے گئے۔ گندم کی کاشت میں ریکارڈ بنانے والے کسانوں کو 36 ڈسٹرکٹ میں دو کروڑ کے انعام دیئے گئے۔ صوبائی لیول پر پہلا انعام چھ لاکھ روپے ڈسٹرکٹ لیول پر پہلی پوزیشن کو تین لاکھ دوسری پوزیشن کو دو لاکھ اور تیسری پوزیشن کو ایک لاکھ روپے دیا گیا۔ اوسطاً 65 من سے زیادہ والے اور ساڑھے بارہ ایکڑ والے کسان اس مقابلے میں شامل تھے۔ تقریب میں پہلی پوزیشن لینے والے کسان سے پوچھا گیا کہ آپ اس رقم کا کیا کریں گے کہاں گھومنے جائیں گے۔ اس کسان نے حیران کر دینے والا جواب دیا کہ جس زمین کی وجہ سے انعام ملا ہے میں اسی زمین پر لگاؤں گا اور زیادہ پیداوار لونگا۔ کماد کی فصل میں اچھی کارکردگی والے کسانوں میں پنجاب بھر میں ایک کڑور نوے لاکھ تقسیم کیے گئے۔ صوبائی سطح پر اچھی کماد پر پہلی پوزیشن لینے والے کو دس لاکھ روپے، ڈسٹرکٹ لیول پر تین لاکھ، دو لاکھ اور ایک لاکھ روپے کے انعامات تقسیم کیے گئے۔ جبکہ تیل دار اجناس کی پیداوار والے کسانوں میں پنجاب بھر میں تریسٹھ لاکھ روپے کے انعامات تقسیم کیے گئے۔۔
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے عزم دہرایا ہے کہ نئے بجٹ میں زراعت کے ترقیاتی بجٹ میں 360 فیصد تاریخی اضافے کے ساتھ سات ارب پچھتر کروڑ بڑھا کر 31 ارب تجویز کیا ہے۔ جس میں جنوبی پنجاب کا زراعت کا گیارہ ارب روپے رکھا گیا ہے۔ آئندہ زرعی سبسڈی کی مد میں چار ارب روپے جبکہ گندم، چاول اور مکئی پر تحقیق چار سنٹر بنانے کی بھی تجویز ہے۔ کسانوں کے اخراجات میں کمی لانے کے لیے کھاد، بیج، زرعی آلات وغیرہ کی خریداری پر فصل بیمہ اور آسان شرائط قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پانچ ارب روپے سے بڑھا کر سات ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
دنیا میں اگلی جنگ ہوئی تو پانی پر ہو گی۔ عظیم ملک وقت سے پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ وہ ملک جس کی زراعت میں 75 فیصد لوگ وابستہ ہوں۔ وہ ہنگامی بنیادوں پر پلاننگ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں پانی کے کم استعمال سے فصل کاشت کرنے پر کام ہو رہا ہے اور حکومت اس پر سبسڈی بھی دے رہی ہے۔ پہلا ڈرپ ایریگیشن سسٹم میں حکومت ساٹھ فیصد سبسڈی دیرہی ہے۔ پانچ ایکڑ والے کسان کو ڈرپ ایریگیشن سسٹم لگوانے کے لیے سوا لاکھ روپے لگتے ہیں۔ جبکہ دس ایکڑ اراضی والے پر خرچہ کم ہو کر نوے ہزار لگتا ہے۔ جہاں پہلے پانی لگانے کا عمل آٹھ گھنٹے پر محیط ہوتا تھا۔ اب وہاں دو گھنٹے پانی لگایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر پودوں کو چند سیکنڈ پانی لگنے سے فصلوں میں پانی کی کمی پوری ہوتی ہے۔ دوسرا لیزر لیول اور پکے کھالوں کی مد سے پانی کے زیاں کو روکا جا رہا ہے۔ اگر مزید معلومات لینی ہو تو ویب سائٹ ofwm-agripunjab.gov.pk ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
کسانوں کے لیے ایک اور سہولت وہ کسان کارڈ کا اجرا ہے۔ یہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی محض باتیں نہیں تھیں۔ انہوں نے اس پر عملی جامہ پہنایا ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافہ اور کسانوں کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ براہ راست سبسڈی سکیم سے کیش ٹرانسفر سے مالی معاونت کی جا رہی ہے۔ جو کاشتکار ایچ بی ایل کونیکٹ کے ذریعے اپنا اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔ جس کے لیے کسانوں کے پاس موبائل نمبر اور شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ کارڈ زمیندار اور پٹہ دار کسان بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے روز اول سے ملک میں زرعی انقلاب کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھرپور کام کر رہے ہیں۔ آج اگر کسانوں کا اعتماد بحال اور مورال بلند ہوا ہے۔ اس کی وجہ پی ٹی آئی کی کسان دوست حکمت عملی ہے۔ جس کی بدولت ہمارے کاشتکار تازہ دم ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی محنتوں میں پہلے سے زیادہ مگن ہو گئے ہیں اور ریکارڈ پیداوار اٹھا رہے ہیں۔ وہ دن اب دور نہیں جب زراعت کی ترقی، کاشتکاروں کی آسودگی اورعوام کی بہتری کے حوالے سے ملک میں خوشحالی کا راج ہو گا۔