خواتین کے لباس کے حوالہ سے کپتان کے حالیہ ارشادات نے ایک نئی بحث کو سماج میں جنم دیا ہے،نجانے کیوں ان کو ایسا کہنے کی ضرورت پیش آئی، کپتان کا جو وصف انہیں دیگر سے ممتازرکھتا ہے وہ ان کا مغربی اور مشرقی معاشروں سے گہرا تعلق ہے، موصوف مشرق میں پیدا ہوئے ہیں، مغرب میں ایک امیر کبیر خاندان کی نیک دختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک رہے وہ دونوں کی روایات کے عینی شاہد ہیں، اسی تناظر میں انہوں نے خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم کو لباس کے ساتھ نتھی کر کے یہ پیغام بادی النظر میں دیا ہے کہ سماجی اقدار پر مبنی لباس خواتین کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے،مردوں کی نگاہ کے سامنے ایک ڈھال ثابت ہو سکتا ہے، معاشرہ کا اقلیتی گروہ جس کو”دیسی لبرل“کہا جاتا ہے، اس نے اس پر خاصا ناک منہ چڑھایا ہے،وہ صنف نازک کے حوالہ سے ہر ایک عمل کو اپنی خاص عینک سے دیکھتے ہیں،اور انکی تان آکر ”نسوانی آزادی“ پر ہی ٹوٹتی ہے،اس بیان سے انہیں یہ لگاجیسے کپتان عورتوں کے لئے الگ”ڈریس کوڈ“کا حکم صادر کر نے والے ہیں۔
ہم عرض کئے دیتے ہیں کہ ہماری غالب آبادی آج بھی دیہاتوں میں مقیم ہے، جہاں مردوخواتین انتہائی مہذب لباس زیب تن کرتے ہیں،وہ کسی غیر مہذب لباس میں غیر محرم کے سامنے آنے کو غیر مناسب سمجھتے ہیں،بڑے صوبہ کے علاوہ سندھ، کے پی کے،اور بلو چستان میں بھی خواتین کا لباس انکی اقدار اور روایات کا امین ہوتا ہے، ہمارے ہاں خواتین کی غالب اکثریت شرم وحیا کی پیکر ہیں،اسکی شہادت آپکو کسی بھی تعلیمی ادارے، عوامی اجتماعات، کسی فیملی فنکشن سے مل جاتی ہے، اس لئے بھی ہمارا معاشرہ ایک مسلم سماج ہے، اس کی تہذیب، رہن سہن،کلچر کی ہدایات قرآن وسنت میں جلی حروف میں رقم ہیں،سماجی اعتبار سے مرد گھر کا سربراہ قرار پایا ہے، جو خاندان کی سماجی اقدار کا محافظ بھی ہوتا ہے۔
البتہ کپتان کی توجہ اس عہد کی طرف مبذول کرانا ضروری خیال کرتے ہیں، جب وہ ڈی چوک پر براجمان تھے انکے مداحوں میں ایک بڑی تعداد نسل نو کی تھی، احتجاجی تحریک کے موقع پر مخلوط محافل میں جو رنگ رلیاں وہاں منا کر مشرف کی روشن خیالی کو آگے بڑھاتے رہے میڈیا کے آنکھ سے ہلٹر بازی کا سارا منظر گھروں میں دیکھا جاتا رہا، اس کا حساب آخر کون دے گا، کیا یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس ما حول ہی نے نسل نو کے در زبان پنجابی”جھاکے کھول دیئے تھے“ کیا وہ اس غفلت کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیا ر ہیں، کیا کفارہ کے طور پر وہ نسل نو کی کردار سازی جوان کے فرائض منصبی میں اب شا مل ہے نہیں کریں گے؟جبکہ انکی طرف سے تسلسل کے ساتھ ریاست مدینہ کی گردان بھی کی جارہی ہے، کردار سازی جسکا پہلا وصف تھا۔
گلوبل ولیج کے اس دور میں ہر طرح کی معلومات تک رسائی ہر فرد کو حاصل ہے اس میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے،ان میں بعض معلومات، لٹریچر انتہائی اخلاق بافتہ ہوتا ہے، کیا ہمارے قومی اداروں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ انکو سنسر کر دیں،یا اس بابت کوئی واضح پالیسی بنائیں تاکہ غیر اخلاقی وڈیوز نسل نو کے ہاتھ نہ لگے،فی زمانہ تمام افراد زیادہ میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں۔ خواتین کی تفریح گھروں میں ڈرامہ دیکھنا ہوتی ہے، آج کل جو ٹی وی ڈ رامے عوام کو دیکھنے کو مل رہے ہیں،وہ کسی طور پر بھی ہماری روایات کے مطابق نہیں ہیں، ان کے گیٹ اپ سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ سماج کے امیر کبیر طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں،ماضی کی معروف ڈرامہ نگارز اس پر بھر پور تنقید کر چکی بلکہ یہ الزام دھر چکی ہیں کہ موجودہ ڈرامے خاندان کی شکست و ریخت کا سبب بن رہے ہیں،انکے اثرات بھی خواتین لباس پر مرتب ہوتے ہیں، اشتہارات میں عورت کو بطور ٹول استعمال کیا جارہا ہے، انکا لباس کسی طور پر ہماری تہذیب سے میل نہیں کھاتا، اشتہارات تو ہر عمر کے لوگ دیکھتے ہیں،آزاد خیال خواتین اس کو کاپی کرنے کی جسارت کرتی ہیں،شکوہ کرنے سے قبل اس پر پابندی عائد کر نا سرکار کی ذمہ داری ہے۔
ایک نجی ٹی وی پروگرام کی وساطت سے معلوم ہوا ہے، کہ سرکار نے بجٹ سیشن کے دوران پارلیمانی روایت کے خلاف گھریلو تشداور حفاظت کا بل عجلت میں منظور کرا لیا ہے،جس کے بہت ہی منفی اثرات سماج میں دیکھنے کو ملیں گے، سینیٹ میں جماعت اسلامی کے واحد senater مشتاق احمد نے اسکی مخالفت کی اور ایوان کو متوجہ کیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بل کی کاپیاں بدیشی زبان میں فراہم کی ہیں تاکہ سینیٹ میں علماء اسکو نہ سمجھ سکیں اس طرح انکا استحقاق مجروح کیا گیا ہے، اس بل کی منظوری کے بعد جس طرح مغرب میں والدین بالغ بچے اور بچی کے ہر فیصلہ کے سامنے بے بس ہوتے ہیں اس طرح یہاں بھی یہ قانون لایا جارہا ہے کہ ہر بالغ بچے، بچی، بیوی کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت دے جائے گی والدین اس پر سختی نہ کر سکیں گے اگر ایسا کرتے ہیں تو گھریلو تشدد کے نام پر قانون حرکت میں آجائے گا، ایک طرف کپتان خواتین کے لباس پر درس دے رہے ہیں تو دوسری طرف چور دروازے سے ایسا قانون لا رہے جو اولاد کو والدین کے سامنے لا کھڑا کرے، اس دوہری پالیسی کو کیا نام دیا جائے۔مذکورہ سینٹر نے بل کو آئین کے متصادم قرار دیکر اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہمارے سماج میں بچوں، خواتین کے ساتھ بد تہذیبی کی وجہ محض لبا س نہیں بلکہ دوسرے سماجی فیکٹرز بھی ہیں ان میں اہم غربت، جہالت،معاشی اور سماجی تفاوت،بااثر افراد کا خود کو قانون سے بالا تر سمجھنا، سزاؤں کا موثر نظام نہ ہونا، پولیس کا فرسودہ نظام، خواتین کا تعلیم یافتہ نہ ہونا، قبائلی، خاندانی، برادری کی گھٹیا رسومات بھی اسباب میں شامل ہے۔
خواتین ہماری آبادی کا نصف ہیں،انکے مسائل محض لباس تک محدود نہیں ہیں، بلکہ غیر شرعی اور فرسودہ رسومات اِنکے پاؤں کی زنجیر ہیں۔گھر بسانے سے لے کر وراثت میں حصہ تک اس میں شامل ہے۔
دیسی لبرلز کے نزدیک عورت کی آزادی کا مفہوم مدر پدر آزادی ہے،عورت کا اپنے کسی فعل کا جواب دہ نہ ہونا ہے، نکاح کی وساطت سے کسی عائلی ذمہ داری کو وہ عورت کیلئے بوجھ سمجھتے ہیں، اس کے برعکس اسلامی نقطہ نظر کے مطابق خاتون کا مرتبہ اور مقام اتنا اعلیٰ ہے کہ وہ خاندان کی تربیت کی ذمہ دار ٹھہرائی جاتی ہے، اخلاقی، سماجی،قانونی حدود میں رہ کر اسکو ہمہ قسم کے فرائض ادا کرنے کی آزادی حاصل ہے،اس کو شمع محفل بنانے کے بجائے خاندان کی ملکہ بنانا اسلام کا مقصود ہے،کپتان کو ان معاملات میں الجھنا نہیں چاہئے جو چودہ سو سال قبل طے ہو چکے ہیں،ہماری خواتین کی کثیر تعداد اس پر عمل پیرا بھی ہے، اِنکا اصل کام تو یہ ہے کہ وہ ان وجوہات کا خاتمہ کریں جو کسی عورت کی بے توقیری کا باعث بنتی ہیں،سماجی بگاڑ کے خاتمے سے لے کر معاشی عدل وانصاف کی فراہمی تک سب ریاست کے ذمہ ہے، ایک طرف کپتان کی پردہ کی ترغیب دوسری طرف گھریلو تشدد کے نام پر خاندان کی غیر ضروری آزادی روشن خیالی کا بل آپکی دوہری پالیسی کا عکاس ہے۔