نیویارک: کرپشن کیس میں اشتہاری قرار پانے والی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سابق چیئرپرسن فرزانہ راجہ منظر عام پر آ گئیں۔ انہوں نے کرپشن کے تمام الزامات کو مسترد قرار دیتے ہوئے انکم سپورٹ کے موجودہ پروگرام کو بھی شفاف قرار دے دیا۔
نیویارک میں زوم کے ذریعے اپنی وکیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرزانہ راجہ نے کہا کہ پاکستان کے پچاس لاکھ گھرانوں کو سماجی تحفظ فراہم کرنے کا پہلا پروگرام دیا۔ اس پروگرام کے ذریعے چار کروڑ لوگوں کے گھروں کے چولہے جلے۔
فرزانہ راجہ کا کہنا تھا کہ پانچ ارب کا یہ پروگرام جس کے لیے ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر اداروں نے امداد دی، جس کی شفافیت کی تائید عالمی رہنماؤں تک نے کی۔
انہوں نے کہا کہ انہیں کرپٹ کہہ کر چار کروڑ لوگوں کی توہین کی گئی جو اس پروگرام سے وابستہ تھے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شفاف تھا اور ہے، نہ کرپشن ہوئی نہ ہی کوئی کر سکتا ہے۔
پریس کانفرنس میں فرزانہ راجہ کی وکیل نے ان پر ہونے والے ڈومیسٹک وائلنس، شوہر اور خاندان کی جانب سے تشدد کی تفصیلات بھی بتائیں۔ کانفرنس کا اہتمام پیپلز پارٹی امریکا کے رہنما چودھری سرور کی جانب سے کیا گیا تھا۔
فرزانہ راجہ نے بتایا کہ وہ یہ پریس کانفرنس پارٹی کی طرف سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت سے کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان سے امریکا تین مہینے کے لیے صرف کتاب لکھنے کے لیے آئی تھیں۔ جب پاکستان سے آئیں تو ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی انکوائری یا کیس نہیں تھا بلکہ وہ بہت عزت کے ساتھ یہاں آئیں، کیس دس سال کے بعد مارچ 2020ء میں فائل ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی شفافیت کی تائید ہیلری کلنٹن، گورڈن براؤن اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل تک نے کی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت تبدیلی کے بعد آئی ایم ایف نے شرط لگائی کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے پیسے بڑھیں گے۔ اگر یہ پروگرام غیر شفاف ہوتا تو آج تک نہ چل رہا ہوتا۔ حتیٰ کے نواز شریف اور عمران خان کی حکومتیں بھی اسے چلانے پر مجبور ہو گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں امریکا آکر ڈومیسٹک وائلنس کا شکار رہی ہوں، لگتا ہے کہ نیب مقدمات کے تانے بانے بھی اسی سے ملتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سارا کھیل انہیں پاکستان واپس لانے اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔
فرزانہ راجہ نے مزید کہا کہ نہیں جانتی کہ پاکستان میں دس سال کے بعد مقدمات کا کیا مقصد ہے؟ نیب تو بنایا ہی سیاسی انتقام کے لیے گیا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ میں لکھا ہے کہ چیئرپرسن صرف بورڈ کا سربراہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں، میرے دور میں بورڈ میں شامل شوکت ترین اور ڈاکٹر عشرت حسین اب موجودہ حکومت کا بھی حصہ ہیں۔ شمس قاسم لاکھا، اعجاز نبی بھی بورڈ ممبر تھے۔ تمام فیصلے بورڈ کی منظوری سے ہوتے تھے، اگر یہ تمام لوگ پارسا ہیں تو میں اکیلی کیسے ذمہ دار ہو گئی؟
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سابق چیئرپرسن فرزانہ راجہ کو غیر قانونی ٹھیکوں کے مقدمے میں اشتہاری قرار دے دیا ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے فاضل جج نے حکم دیا تھا کہ فرزانہ راجہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے جبکہ ان کا شناختی کارڈ بھی بلاک ہونا چاہیے۔
عدالت نے فرزانہ راجہ کے دائمی وارنٹ جاری کرتے ہوئے ان کا نام ریفرنس سے الگ کر دیا جبکہ ان کیخلاف فرد جرم کیلئے نئی تاریخ بھی مقرر کردی۔ فاضل جج کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی ججمنٹ کے مطابق تفتیش کو کسی مرحلے پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مبینہ طور پر کی گئی کرپشن کیخلاف ایک ریفرنس دائر کیا تھا جس میں 19 ملزمان کو فریق بنایا گیا تھا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق پیپلز پارٹی کی سابق رہنما فرزانہ راجہ نے ملکی خزانے کو پچاس کروڑ سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ ان کیخلاف اختیارات کے غلط استعمال کرنے کا الزام بھی عائد ہے۔