کیا پاکستان کے عوام جمہوریت چاہتے ہیں؟ یقینا چاہتے ہوں گے کیونکہ وطنِ عزیز میں جمہوریت سے مراد افراد اور اُن سیاسی جماعتوں کو چاہنا ہے وہ سیاسی جماعتیں جن کو اگر سیاسی مزارات کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ہر مزار کے اپنے ماننے والے ہیں جن کے نزدیک ہر کام اہل مزار کے حکم سے اور ٹھیک ہو رہا ہے۔ تصوف کی حد تک تو اس بات سے میرا کوئی اختلاف نہیں مگر سیاست شناخت ہوتی ہے اور پاکستان میں ورکنگ کلاس نے آج تک اپنے کسی نمائندے کی شناخت نہیں بنائی۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان دولتانوں، ٹوانوں، لغاریوں، دریشکوں، بھٹوؤں، میاں اور جرنیلوں کا ملک بن کر رہ گیا ہے۔ جن کے مفادات عالمی طاقتوں کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصل کرنا ہے اور جس کا مظاہرہ پاکستان کے غیور عوام ایک عرصہ سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں مگر شاید ہم اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں قومیں روٹی، کپڑا اور مکان نہیں اقتدار مانگتی ہیں۔ جہاں فیصلے تسلیم کرنے کے بجائے فیصلہ کرنے کا اختیار عوامی مطالبہ بنا کر سامنے آ جاتا ہے۔ جہاں اقتداری نہیں مقتدری سیاست کی بات ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ شاید ہر حکمران کو فطرت کسی بڑی تبدیلی سے پہلے آنکھوں سے اندھا اورکانوں سے بہرہ کر دیتی ہے۔ ریاست کی ارتقا کے قاری ہونے کے ناتے میں اس بارے کوئی دوسری رائے نہیں رکھتا کہ غیر مقتدر ریاست کبھی آزاد ادارے تخلیق نہیں کر سکتی۔ انسانوں کا ایک گروہ مقتدر ریاست کیلئے کوشش کرتا ہے اور وہ مقتدر ریاست ہی مقتدر ادارے بنا سکتی ہے لیکن گلوبل دنیا میں شاید امریکن اپنے سوا دنیا کی تمام ریاستوں کو غیر مقتدر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
سابق حکومت نے اپنے ساڑھے تین سال امریکی دوستی اور آخری ایک ماہ امریکی مخالفت میں گزارا۔جب تک عمران خان کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر نہیں آیا وہ امریکی آشیر باد کے گُن گاتا رہا لیکن جب اپنی ہی بری پالیسیوں کے نتیجہ میں اُسے اقتدار ہاتھ سے نکلتا نظرآیا توبقول ایازمیر کے وہ چے گویرا بن گیا ۔ایازمیرانتہائی تعلیم یافتہ آدمی ہیں اورمیری رائے اُن کے بارے میں آج بھی بری نہیں لیکن انہوں نے عمران خان اورچے گویرا کا تقابل کرتے ہوئے شاید دونوں کرداروں کی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ وہ ایسی بات خواب میں بھی نہ کہتے ۔چی گویرا کی جدوجہد کے طریقہ کار سے سو اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں کہ چے ایک بہادر اور نڈر انقلابی تھا جو دنیا بھر کے مظلوموں کیلئے لڑنا چاہتا تھا مجھے اُس کے حالات زندگی پڑھ کر یہی معلوم ہواکہ شاید جس انقلاب کی اُس نے بنیاد رکھی اُس کی عملی شکل بھی خود دیکھنا چاہتا تھا وہ سب کچھ جلد از جلد کرنا چاہتا تھا ۔ وہ انقلاب کے تسلسل پر یقین نہیں رکھتا تھا ۔عمران خان نے عوام سے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرکے ہمیشہ جھوٹ بولا جو کسی بھی انقلابی لیڈر کے تمام دعووں کی نفی کے مترادف ہے ۔ضیاء الحق ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں پھنسا گیا تھا اورعمران خان ہمیں معاشی دلدل میں اتار گیا ۔یہاں سے نکلتے ہوئے ہمیں ایک بار پھر بہت وقت لگ جائے گا لیکن ریاست کی زندگی ایک دن کی نہیں ہوتی اور پھر پاکستان بارے تویہ رائے ہے کہ یہ اللہ کے نام پر بنا ہے اور اسے قیامت کی صبح تک قائم رہنا ہے سو ہم نے اس ریاست کا بھی ویسا ہی بندوبست کیا ہے جیسا اپنی آخرت کا کرر کھا ہے ۔
پاکستان بنانے میں ورکنگ کلاس اور اُس کے نمائندوں کا کردار مرکزی رہا لیکن تاریخ کا یہ جبر بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہی ورکنگ کلاس جس کے آباء و اجداد کے شہید اجسام کی کھلی آنکھوںمیںایک آزاد اور خود مختار مملکت کا خواب تھا وہی اسی سرزمین پر سب سے زیادہ بے آبرو ہوئے ہیں۔وہ عصمتیں جواِک صبح نور کی خواہش میںتار تار ہوگئیں آج بھی عالم برزخ سے حیرت و حسرت کی تصویر بنی اس مملکت ِ خداداد کو دیکھ رہی ہیں جہاں اُن کی ہم جنس جسم فروشی کے عوض چند اشیاء ضرورت کی تمنائی ہیں۔وہ مائیں،بہنیں اوربیویاں جنہوں نے اس وطن کی بنیادوں میں اپنے جوان بیٹے ،بھائی اور سہاگ تک دفن کردئیے تھے قہر آلود نگاہوں سے آزادی کے اس خواب کو دیکھ رہی ہیں جہاں مملکت ِخداداد کی ہر گلی کے موڑ پر عزت نفس مجروح ہو رہی ہے۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کیلئے لاکھوں انسانوں نے آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا؟کیا یہ وہی مملکت ہے جودرد کے ان گنت افسانوں کو جنم دینے کے بعدظہورپذیر ہوئی؟
ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں بہتر ہوتی ہے لیکن ہم نے شاید ذلیل ہو کررہنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔یہ بات درست ہے کہ اسلام میں حرام کی ممانعت ہے لیکن اسلام ہی مخصوص حالات میں حرام کی اجازت بھی دیتا ہے ۔جب تم خود کشی کرنے والوں کو عزت کی زندگی نہیں دے سکتے تو وہ ذلت کی موت سے بچنے کا رستہ خود نکال لیتے ہیں اور اس پر بھی تمہیں اعتراض ہے ؟یہ تمام مقتول روز قیامت شفاعتِ مصطفی کا دامن پکڑا کر چیخ چیخ کر تمہارے ظلم اور بے رحمانہ طرزِ حکومت کے خلاف معتبر ترین شہادتی ہوں گے کہ انہیں بس یہی اک امید ہے۔
ایک حقیقت عالمگیر ہے کہ جو شخص اپنی عزت خود نہیں کرتا اُس کی کوئی بھی عزت نہیںکرتا لیکن میرے لوگو ں کو تو عزت اور ذلت کے الفاط سے آشنا ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ان کے ساتھ جڑے ہوئے معنی و مفہوم کے نتیجہ میں جس مقام کا تعین ہوتا ہے یہ تو اُس سے بھی نہ واقف ہیں۔مگر کیا یہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے تو میں ایسا خیال نہیں کرتا۔ کسی قوم کیلئے سب سے بڑا مسئلہ کسی چیلنج کو قبول کرنا ہی ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات قومیں کسی چیلنج کو چیلنج سمجھتی ہی نہیں یا پھر کسی چیلنج کو ناقابلِ تسخیرسمجھ کر توجہ نہیں دیتیں لیکن شاید اب ہمارے پاس ایک ہی رستہ ہے کہ ہمیں اس چیلنج کو قبول کرنا ہو گا۔ سامراجی بالادستی کسی کی بھی ہواُسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خیر باد کہنا ہو گا ورنہ شاید ہمیں کبھی کوئی چیلنج درپیش نہ آئے۔ سامراجی ریاستوں اجارہ داری کی لڑائی میں ہمارے پاس یہ بہترین وقت ہے کہ ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے خود انحصاری پالیسی کا رستہ بنائیں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ریاستوں کے درمیان صرف مفادات ہوتے ہیں دوستیاں نہیں اور یہی وہ وقت ہے جب ہمیں اپنے مفادات کا تعین کر لینا چاہیے کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ امریکہ، روس، چین اور یورپی یونین سے دوستی بجا لیکن ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہو گا کیونکہ ہمارے ہر حکمران کا سیاسی سلسلہ نسب کہیں نہ کہیں بیرونی قوتوں سے ملتا ہے سو ہمیں خود سوچنا ہو گا۔