عظیم قوموں کی ترقی کا سفر

عظیم قوموں کی ترقی کا سفر

مختلف ثقافتوں کاگھرملائیشیاء جنوب مشرقی ایشیاء میں ایک ایساملک ہے جہاں تین بڑی کمیونٹیز ملایا، چائینیز اور انڈینزآبادہیں۔اس ملک نے آزادی کے کچھ ہی عرصہ بعداپنالوہامنواناشروع کردیا۔آزادی کے بعداس ملک کوکئی مسائل کاسامناکرناپڑاجس کی وجہ سے اس ملک میں امن تھانہ لوگوں میں ہم آہنگی۔مسائل کی جڑملایالوگوں کی محرومیاں اوراس ملک کے باشندوں میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم تھی،جس کی وجہ سے ملایالوگ اپنے ملک کے ہوتے ہوئے بھی اس کے پیشتراثاثوں سے محروم تھے۔ملک کی آبادی کا 67فیصدملایالوگوں پرمشتمل تھا،اور ان کے پاس صرف ملکی دولت کے اڑھائی فیصداثاثے تھے،جس کی بدولت غربت بڑھ رہی تھی۔13مئی 1967  ملایا لوگوں نے چائنیز لوگوں کا قتل عام شروع کردیا،جس سے ملک میں افراتفری بڑھ گئی اور اس وقت کی گورنمنٹ ختم کر دی گئی۔مفکرین سرجوڑکربیٹھ گئے اورپرامن ملک کے تشکیل کے لیے انہوں نے نیواکنامک پالیسی بنانے کے لیے ملکی مسائل کی شناخت کرکے ملکی مسائل کوحل کرنے کی تجاویزسامنے رکھنے کے لیے ایک نئی کمیٹی تشکیل دی۔سب سے بڑاجومسئلہ ڈھونڈاگیاوہ یہ تھاکہ 67فیصدملایاکے پاس جواثاثے تھے انکاصرف ڈھائی فیصدحصہ ملایا کے کنٹرول میں تھا اور باقی جو33%کنٹرول تھاوہ چائنیز کے پاس، اورباقی 63%کنٹرول فارنرزکے پاس تھاجس میں انڈین،امریکن یورپین اور برٹش لوگ بھی شامل تھے۔
 ملایالوگوں کے پاس ان کی آبادی کے حساب سے اثاثو ں کانہ ہوناسب سے بڑی فسادکی جڑتھی،جس وجہ سے ان میں محرومیاں پروان چڑھ رہی تھی اوردن بدن دنگے فسادات بڑھ رہے تھے۔اس وقت مفکرین ِ وطن نے یہ طے کیاکہ ان تمام مسائل سے نپٹنے کے لیے ملایالوگوں کی غربت ختم کرناانتہائی ضروری ہے۔ملایالوگوں کابنیادی طور پر ذریعہ معاش دو فیلڈز تھیں: ایگریکلچر اور مائننگ۔ اسی کے ساتھ ساتھ چائنیز کا انجینئر نگ، اکائونٹنسی اورآرکی ٹیکٹ کی فیلڈز میں بڑا کردار تھا، جبکہ انڈینزکاکنٹرول ویٹنری، میڈیسن اوروکلاء کے شعبوں پر تھا۔ ملایا لوگوں کی اپنے شعبوں میں بھی آمدنی چائنیزکی آمدنی سے بہت کم تھی۔تمام مسائل کے حل کے لیے یہ 
تجویزکیاگیاکہ ملایالوگوں کادوسری فیلڈزکے اندر جانا انتہائی لازمی ہے جس کی بنیادپرتعلیمی نظام میں تمام شعبوں کے حوالے سے پڑھاناشروع کیاگیا،اوراس کے علاوہ ملایاطلبا کوتعلیمی نظام میں پچپن فیصد کوٹادیاگیا،جس کی وجہ سے ایک توملائیشیا کے لوگوں میں شعور آیا اور دوسرا وہ اتنے ٹرینڈ ہو گئے کہ وہ دوسری فیلڈزمیں اپنا اہم کردار ادا کر کے ملک کی ترقی میں اپناحصہ ڈال سکیں۔ دوسری فیلڈز میں ملایا لوگوں کاجانا اس لیے ضروری سمجھا گیاکہ جب تک وہ دوسری فیلڈز میں نہیں جائیں گے تب تک امن،اتحاداوربھائی چارہ قائم نہ ہوسکے گا۔موجودہ ملکی سسٹم میں آرگنائزیشنل تبدیلیاں بہت مثبت نتائج لے کرسامنے آئیں اوروقت کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کیاگیاکہ ملک میں جوبھی نئی کمپنی بنے گی اس کے تیس فیصدشیئرزملایالوگوں کودیناہوں گے، چالیس فیصد چائنیز لوگوں کو، جبکہ تیس فیصد انڈینز اور دوسرے ممالک کے باشندوں کے لیے شیئرز مختص کیے گئے۔ان تبدیلیوں کی وجہ سے ملایا لوگوں کے لیے مواقع زیادہ ہوناشروع ہوگئے جس کی وجہ سے وہ دوسری مختلف فیلڈزکے اندر جانا شروع ہو گئے، وقت کے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے ملایا گورنمنٹ نے ہیوی انڈسٹری کوپروموٹ کرنا شروع کر دیا، اسٹیل، آئل، ٹیکسٹائل اور سیمنٹ کی انڈسٹریزکے فروغ کے لیے مختلف پیکجزکااعلان کیاگیا،تاکہ عوام کوحوصلہ ملے اور ان کے لیے جتنا ہو سکے آسانیاں پیدا ہوں۔ یہی وہ مثبت تبدیلیاں اورنظام کی درستی تھی جس کی وجہ سے یہ ملک 1990تک ایک مضبوط ملک کے طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ اب ملائیشیا ایک اہم معاشی ملک ہے جس کے دوسرے ممالک کے ساتھ ہرقسم کے تعلقات بہترین ہیں، سیکڑوں سفارت خانے اس ملک میں موجود ہیں۔
عظیم قوموں کے باہمت اور باصلاحیت لوگ ہمیشہ محنت سے ترقی کے قائل رہے ہیں ان کے نزدیک رات بھر میں امیر بننے کا خواب محض ایک ادھوری بات جانا جاتا ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ محنت سے آگے بڑھنے کو ہی اپنا وتیرہ بنائے رکھتے ہیں۔ ترقی کی اصل روح کو پہنچنے کیلئے لگ بھگ نصف صدی کا عرصہ چاہیے ہوتا ہے جس میں کسی ملک یا پھر قوم کی بہتری کا عمل پروان چڑھ سکتا ہے۔ یہاں ایک مثال چین بھی ہے جہاں چند دہائیاں قبل لوگ کسمپرسی کی حالت میں وقت گزارنے پر مجبور تھے لیکن پھر اس ہی ملک نے معاشی اور اقتصادی اصلاحات لاکر اپنی قسمت ہی بدل ڈالی کہ آج وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔ چین ہمیشہ نت نئی جدت اور اعلیٰ طرز معاشرت کا قائل سمجھا جاتا ہے جس نے ناصرف پوری دنیا میں اپنے نام کا لوہا منوایا ہے بلکہ کورونا جیسی عالمی وبا کے باوجود اپنی معاشی حالت کو پہلے سے زیادہ مستحکم کیا ہے۔ چین معیشت کی شب و روز میں پنپتی ہوئی ترقی ملکی لیڈروں کی بہتر حکمت عملیوں کا آئینہ دار دکھائی دیتی ہے۔ چین کی تاریخ میں جھانکا جائے تو ایک بڑا نام ڈینگ زیوفنگ دکھائی دیتا ہے جس نے ملکی ترقی کی داغ بیل رکھی۔ ڈینگ زیوفنگ  1976 میں ایک ملٹری کمانڈر اور  لیڈر کی حیثیت سے ملکی ترقی کا سبب بنے۔ کمانڈر نے زراعت اور صنعت کے شعبہ میں کمال مہارت دکھائی اور منیجرز کی مدد سے اصلاحات کا آغاز کیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں سنگ میل کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا۔
یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں کہ آپ سب سے پہلے مسائل کوتلاش کرتے ہیں اورپھرانکا حل نکالتے ہیں۔اگرکسی بھی ملک کی ترقی رکی ہوتواس کوچاہیے کہ اپنے محروم طبقے پرمحنت کرے،ان کواس قابل بنائے کہ وہ ملک و قوم کااثاثہ کہلائیں،نیزتمام چھوٹے بڑے مسائل کی پہچان کرکے ان کوحل کرنے کی جانب قدم بڑھائے جائیں تاکہ ملک ایک مضبوط قوم کے ساتھ دُنیاکے سامنے ابھرے۔ ہمارے سامنے ملائیشیاکی بہترین مثال موجودہے جس میں حب الوطنی کے جذبے سے سرشارمحنتی عوام اوردوراندیش قیادت نے اس ملک کی معیشت اورترقی کوچارچاندلگادیے۔
محنت کوئی بھی ہو اثر رکھتی ہے لیکن اگر محنت کا حصول مثبت ہو تو واقعی خوشحالی مقدر بن جاتی ہے۔ چین اپنی دوراندیشی اور انتھک محنت سے دنیا بھر کو ہر میدان میں مات دے رہا ہے جبکہ ان دنوں اپنے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹس کی مدد سے پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جس سے وہ آنے والے دنوں میں مزید اوپر جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ یقینا و ہی قومیں یاد رکھی جاتی ہیں جو اپنے بل بوتے پہ پروان چڑھتی ہیں جس کی چین کی ایک واضح مثال ہے۔ محنت وہ واحد عمل ہے جس کا رشتہ کامیابی سے جڑا ہوتا ہے۔

مصنف کے بارے میں