اگر ہمارے بچے ہم سے جھوٹ بولتے ہیں‘ تو اِس کا ذمہ دار ہمارے سوا کوئی اور نہیں۔ جھوٹ…… خوف اور دہشت کے سائے میں جنم لیتا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں سے دوستی نہیں کی، اُن سے محبت نہیں کی۔ ہم نے انہیں صرف اپنا اثاثہ سمجھا،اور اپنے دیگر اثاثوں میں اضافہ کرنے کے لیے انہیں استعمال کرنے کی تدبیرکرتے رہے۔ ہم نے اپنے منصوبے اُن کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کی۔ اگر ہم ڈاکٹر نہیں بن سکے‘تو انہیں زبردستی ڈاکٹر بنایا، اگر ہم باہر کے کسی ملک کا پاسپورٹ حاصل نہیں کر سکے‘ تو اُن کو بدیسی پاسپورٹ دِلوانے کی کوشش کرتے رہے، اگر ہم سیٹھ نہیں بن سکے‘ تو اپنے بچوں کو ایک کامیاب سیٹھ یا بزنس مین بنانے کی خواہش کی۔ ہمارے بچے ہماری خواہش پوری کرتے کرتے گردشِ ایام کی چکی میں پس کر رہ گئے۔ ہم یہ بھول گئے کہ یہ پھول سے بچے ہمارے پاس قدرت کا عطیہ ہیں، یہ انمول موتی ہیں، ہم نے انہیں مٹی میں رول دیا۔ مادّہ پرستی ترقی کے جتنے بھی زینے چڑھ لے‘ یہ مٹی میں مل کر رہتی ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کے ساتھ کبھی دوستی کا رشتہ استوار نہیں کیا، بلکہ اُن کے ساتھ ایک حاکم اور محکوم اورایک افسر اور ماتحت کا رشتہ بنائے رکھا۔ ہم نے انہیں اپنے نقشِ قدم پرچلانے کی کوشش کی، حالانکہ ہمارے نقوشِ قدم اس قدر مثالی نہ تھے۔ ہم اگر خود کسی مثالی نقش ِ قدم پر ہوتے تو ہمیں انہیں اپنا مرید بنانے کی ضرورت نہ پیش آتی، لیکن ہم ساری عمر اَنا اور غرور کے گھوڑے پر سوار رہے،ہم خود کسی کے نقوشِ قدم کو بوسہ نہ دے سکے لیکن اپنی اولاد کو اپنا جانشین بنانے کی تگ و دَو میں رہے۔ اگر روحانی بلندی نصیب نہ ہو‘ تو مادّی بلندی کی تقلید گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اخلاقی طاقت موجود نہ ہو‘ تو انسان اپنے بچوں کو مادّی طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقلید کی دعوت دیتا ہے۔ ایک چرواہا بکری کے بچے کو محبت کی رسی سے باندھ لیتا ہے لیکن ہم اپنے بچوں کواس رسی سے نہیں باندھ سکے…… بلکہ انہیں جکڑباندھ کرنے لیے طرح طرح کی زنجیریں لاتے رہے…… کبھی مارپیٹ، کبھی ڈانٹ ڈپٹ، کبھی اپنے قوم قبیلے اور روایات کی دھونس ……اور کبھی روٹھ جانے کی دھمکی…… اگر بچہ دینی رجحان کا حامل ہوا‘ تو اسے قدموں تلے جنت کے کھسک جانے کی دھمکی…… دین برباد ہو جانے کی دھونس سب سے کارگر ہے۔ ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے بعد اپنے بچوں کو اپنی اطاعت کی دعوت بھی دے ڈالی، حالانکہ قرآن میں اللہ اور رسولؐ کے بعد صرف اُولی الامر کی اطاعت کا حکم ہے…… والدین کی اطاعت کا حکم کہیں نہیں، والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم ہے۔اُولی الامر…… اَمر والا ہوتا ہے…… اور اَمر والا روح کے روزن سے بات کرتا ہے۔
اِس دھونس اور ماردھاڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچوں میں سے کچھ گستاخ ہو گئے اور جو گستاخ نہ ہوئے وہ جھوٹ بولنے کے عادی ہو گئے۔ اوّل اوّل بچے ہمارے غصے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے جھوٹ بولنے لگے۔ ہمارے اندر اتنا ظرف نہیں تھا کہ بچوں کی غلطیاں اُن کے منہ سے سنتے اور انہیں فراخدلی سے معاف کرتے، اِس لیے ہمارے بچوں
نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ وہ جھوٹ بول کر”سرخ رو“ ہو جائیں، وگرنہ سچ بولنے کی صورت میں ہم اُن کے رُو‘ سرخ کر دیتے۔
ہمیں آزاد فضا راس نہ آئی، ہم اپنے مزاج کے بندی خانے کے اَسیر رہے…… ایک قیدی دوسروں کو بھی قید دیکھنا چاہتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہم اپنے نظریات اور عقائد کا بوجھ بھی اُن ننھی جانوں پر ڈالتے رہے۔ وگرنہ ہر پیدا ہونے والے بچے کو حق حاصل تھا کہ وہ اپنی پسند کا نظریہ اپنے لیے انتخاب کرتا اور ایک پوری ذمہ داری سے اپنے شعوری سفر پر عازمِ منزل ہوتا۔ ہمارا دین‘دین ِ فطرت ہے، یہ سچے اللہ کا سچا دین ہے، کوئی فکری موشگافی اِسے سبوتاژ نہیں کر سکتی، ہم اپنے بچوں کے سوالوں سے کیوں گھبراتے ہیں؟ دراصل یہاں بھی ہم قصوروار ہیں، ہمارا دین کے ساتھ تمسک شعوری نہیں بلکہ رسمی اور روایتی ہے۔ ہم رسوم و روایات کی نگہداری کو دین سمجھ بیٹھے ہیں، ہم نے اپنے تعصب کا نام محبت رکھ لیا ہے، ہم نے اپنے موقف سے اختلاف کرنے کو گمراہی تصور کر لیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ سچ وہاں بولا جاتا ہے جہاں سچ کو برداشت کیا جا سکے۔ سچ ایسے خاندانوں اور معاشروں میں پنپتا ہے جہاں آزادی اظہار کا چلن ہو، وگرنہ گھٹن زدہ اور منافق معاشروں میں سچ بولنے کو بغاوت سے تعبیر کر لیا جاتا ہے۔
ہم یہ بھول گئے کہ بچہ ایک مکمل شخصیت ہوتا ہے، جس طرح ہماری ایک شخصیت ہے، مزاج ہے، پسند اور ناپسند ہے، عزت نفس ہے‘ اس طرح بچہ بھی ایک عزتِ نفس رکھتا ہے۔ ہم اپنے بچے کی عزتِ نفس مجروح کرنے کو اپناخاندانی حق سمجھ لیتے ہیں۔ دین نے ”وبالوالدین احسانا“ کی صورت میں ہمیں اُن پر عمر بھر کی برتری کا ایک لائسنس دیا ہے لیکن ہم اس کا ناروا استعمال کرتے رہے۔ ہمارے بچے اگر ہمارے منہ پر ترکی بہ ترکی جواب نہیں دیتے تو یہ اُن کا احسان ہے، ہم نے اُن کے احسان کو اپنا حق سمجھ لیا۔ بچے کامیاب ہوگئے اور ہم فیل ہو گئے۔اگر ایک جوان بچہ سگریٹ پیتا ہے اور اپنے والدین کے سامنے کہہ دیتا ہے کہ اُس نے سگریٹ نہیں پی‘ تو یہ اُس کا اَدب ہے‘ جھوٹ نہیں۔ بہت سے معاشرتی اَدب درحقیقت جھوٹ ہی ہوتے ہیں۔ اگر ایک بچہ سینما تھیٹر دیکھ کر رات گئے گھر آتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ وہ اپنے دوست کے گھر سے آیا ہے، تو ہمیں جاننا چاہیے کہ وہ ہمارا احترام کر رہا ہے، وگرنہ ایک نوجوان اپنے باپ کو منہ پر کہہ سکتا تھا کہ ہاں میں وہی کام کر کے آیا ہوں جسے تُو ناپسند کرتا ہے۔
ہم خود کو اپنے بچوں کا مالک سمجھ لیتے ہیں، خود کو اُن پر حاکم تصور کر لیتے ہیں …… دراں حالیکہ مملوک اور محکوم قابلِ اعتبار نہیں ہوتے، صرف دوست اور محب اس قابل ہوتے ہیں کہ اُن پر اعتبار کیا جائے۔جاننا چاہیے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ سلیم فطرت پیدا ہوتا ہے، اُسے بگاڑنے میں معاشرہ …… اور معاشرے سے پہلے گھر والوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ایک معصوم صفت بچہ سچ بولنے میں آسانی محسوس کرتا ہے، وہ اپنا سچ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ جھوٹ‘ وہ معاشرے سے سیکھتا ہے۔ بچے کا پہلا معاشرہ اُس کا گھر ہوتا ہے۔ وہ شعور کی آنکھ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سچ بولنے میں وہ مشکل میں پڑ جاتا ہے، جھوٹ بول کر وہ ہر مسئلے سے آسانی سے نکل جاتا ہے، رفتہ رفتہ اُس کی یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔ اپنے بچوں کو جھوٹ کی علت سے دُور کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم خود پر ضبط کا پہرہ رکھیں، ہم اپنے بچوں کو یہ اعتماد دیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہر بات کر سکتے ہیں، اُن کی ہر غلطی قابلِ معافی ہے۔ معاف کرنا اور معاف کرتے رہنا…… بس یہ گُر ہے جو فاصلے ختم کرتا ہے۔ فاصلے ختم ہونے سے خوف ختم ہوتا ہے…… اور خوف ختم ہو جائے تو کسی کو جھوٹ بولنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔انسانی بچے کی پرورش‘دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ صرف روٹی پانی، فاسٹ فوڈ، برانڈڈ لائف سٹائل اوربرانڈڈ سکولوں کی فیسیں بھرنے سے ہم اپنے بچوں پر احسان نہیں چڑھا سکتے کہ ہم نے تمہاری پرورش کی۔ پرورش ……وقت، توجہ اور محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ آج ہم اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے تو کل کلاں اُن کے پاس بھی ہمارے لیے کوئی وقت نہ ہوگا۔ بچے ……فطرت کے بچے ہوتے ہیں۔ فطرت نے انہیں اُس دنیا میں بھیجنے کے لیے ہمیں ایک وسیلہ بنایا ہے…… وسیلہ ہونا اور وسیلہ بننا ایک روحانی فریضہ ہے، صرف وسائل خرچ کرنے سے ہم اس مقدس فریضے سے عہدہ برا نہیں ہو سکتے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے اپنی کتاب”کرن کرن سورج“ میں لکھا ہے”ہم اپنی اولاد کو بہت کچھ سمجھانا چاہتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتی ہے، ہماری اولاد بھی ہمیں بہت کچھ سمجھانا چاہتی ہے‘ لیکن ہم نہیں سمجھتے“۔