وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانی دی ہے اور اس سے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں70 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے جان کی قربانی دی اورپاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور نیٹو افواج کی شکست کا الزام پاکستان پر لگانا ناانصافی ہے، امریکا افغان مسئلہ کا حل نکالنے میں ناکام رہا ہے،کسی بھی ملک نے مذاکرات کے لئے طالبان پر پاکستان سے زیادہ دبائونہیں ڈالا، پاکستان کی معیشت مزید افغان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ، پاکستان افغانستان میں امن کے لئے سہولت کاری کررہا ہے، پاکستان افغانستان میں کسی تنازعہ کا حصہ نہیں بنے گا، ہم صرف امن کے شراکت دار ہیں، جنسی تشدد کرنے والا فرد ہی اس جرم کا واحد ذمہ دار ہوتا ہے اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے والا قصوروار نہیں ہوتا۔
امریکی نشریاتی ادارے ”پی بی ایس“کوانٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکا اور نیٹو افواج کی شکست کا الزام پاکستان پر لگانا ناانصافی ہے، افغانستان گذشتہ 40 سال سے حالت جنگ میں ہے، پاکستان نے متعدد بار افغان مہاجرین کی واپسی کی بات کی ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان 1500 میل طویل سرحد ہے، یہ کبھی باقاعدہ سرحد نہیں تھی، اس کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف لوگ آزادانہ نقل وحرکت کرتے تھے، پاکستان نے پہلی مرتبہ خطیر رقم خرچ کرکے باڑ لگائی ہے، ایک وقت ایسا تھا کہ 50 مختلف مسلح گروپ پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے کررہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے جان کی قربانی دی، اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کو اڈے دینے سے پاکستان پھر دہشت گردی کا نشانہ بنے گا، پاکستان امن میں شراکت دار ہے اور وہ تنازعہ کا حصہ نہیں بن سکتا، پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے، پاکستان افغانستان میں امن کے لئے سہولت کاری کررہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے امریکا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کردار ادا کیا ہے، ہم بڑی مشکل سے خراب معاشی صورتحال سے نکلے ہیں، دعاگو ہیں کی افغانستان کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں، اب آدھے سے زیادہ افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا افغان مسئلہ کا فوجی حل تلاش کرتا رہا جو ممکن نہیں تھا چنانچہ امریکا افغان مسئلہ کا حل نکالنے میں ناکام رہا ہے، افغانستان کی تاریخ سے واقف ہوں، پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں، مجھے اپنے اس بیان پر امریکا مخالف اور طالبان خان کہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے امریکا اور نیٹو افواج مذاکرات کی صلاحیت کھو بیٹھے، جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ افواج تھیں تب سیاسی حل کی کوشش کی جانی چاہیے تھی، اب افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات ہیں، افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان بھی متاثر ہوگا، افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان کو دہرے مسائل کا سامنا ہوگا، پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے، پاکستان میں بھی پشتون کثیر تعداد میں آباد ہیں، خدشہ ہے کہ خانہ جنگی سے مزید مہاجرین پاکستان کا رخ کریں گے، پاکستان کی معیشت مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ شامل ہوئی توملک بھر میں خود کش حملے ہوئے، نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، نائن الیون اور نیویارک میں ہونے والے واقعہ سے پاکستان کا کوئی تعلق تھا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا، خود کش حملوں سے تجارت اور سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ دی تو طالبان سمجھے کہ وہ جیت چکے ہیں، اب طالبان کو سیاسی حل پر مجبور کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، طالبان افغانستان میں خود کو فاتح تصور کرتے ہیں، دعا گو ہیں کہ افغانستان کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں، اب آدھے سے زیادہ افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے، کسی بھی ملک نے مذاکرات کے لئے طالبان پر پاکستان سے زیادہ دبائو نہیں ڈالا، پاکستان کا موقف واضح ہے، پاکستان افغانستان میں امن کے لئے سہولت کاری کررہا ہے، پاکستان کسی تنازع کا حصہ نہیں بن سکتا۔
انہوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کو انتخابات میں تاخیر کرنی چائیے تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسلام خواتین کو عزت و تکریم دیتا ہے، خواتین کے حوالے سے میرے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، میں پاکستانی معاشرے میں جنسی جرائم میں اضافہ پر بات کررہا تھا، میرا مطلب معاشرے میں برائی کی ترغیب کو کم کرنا تھا، اسلام میں پردہ صرف خواتین تک ہی محدود نہیں، مردوں کے لئے بھی پردے کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ جنسی تشدد کرنے والا فرد ہی اس جرم کا واحد ذمہ دار ہوتا ہے اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے والا قصوروار نہیں ہوتا۔