پیکا ایکٹ کی منظوری کے بعد صحافیوں کا ملک بھر میں احتجاج

پیکا ایکٹ کی منظوری کے بعد صحافیوں کا ملک بھر میں احتجاج

لاہور، کراچی، اسلام آباد: پیکا ایکٹ کی ایوان بالا و زیریں اور قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد ملک بھر میں اس ایکٹ کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں جہاں اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں، وہیں صحافی برادری بھی اس کے خلاف سراپا احتجاج بن چکی ہے۔

کراچی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مختلف صحافتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیا۔ پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ کو بغیر مشاورت اور جلد بازی میں منظور کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ قانون شفاف ہے تو صحافتی تنظیموں سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی؟

لاہور میں بھی صحافیوں نے پریس کلب کے باہر پیکا ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی علی امتیاز وڑائچ، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ صحافیوں نے اس قانون کی مخالفت میں کالے جھنڈے اٹھا کر اور بازو پر کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔

اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر بھی صحافیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں بڑی تعداد میں صحافی شریک ہوئے اور پیکا ایکٹ کی منظوری کے خلاف نعرے بازی کی۔ پریس کلب اسلام آباد سے مین روڈ تک صحافیوں نے احتجاجی مارچ کیا اور دوران مارچ بینرز اور پینا فلیکس آویزاں کیے گئے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے، اور یہ قانون صحافتی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس قانون کو واپس لیا جائے اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ مشاورت کر کے ایسا قانون بنایا جائے جو میڈیا کی آزادی پر قدغن نہ لگائے۔

مصنف کے بارے میں