’ڈسکور پاکستان‘ کے مارننگ شو میں اقرا حارث نے مجھ سے پوچھا، آپ سوشل میڈیا پر لوگوں سے ناراض کیوں ہوجاتے ہیں، انہیں ان فرینڈ اور بلاک کیوں کر دیتے ہیں۔ مجھے یہ سوال سن کر ہنسی آ گئی کہ میری اس حوالے سے شہرت اتنی ہو گئی ہے کہ باقاعدہ سوال ہونے لگے ہیں۔ اقرا حارث کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ اقرا شہزاد ہوا کرتی تھیں۔ انہیں لاہور کالج سے ٹیلنٹ ہنٹ میں منتخب کیا گیا تھا اور انہو ں نے اپنے انتخاب کو بہت سارے قومی چینلز بھی اپنی صلاحیتوں سے درست ثابت کیا۔ ان کا میرے سوشل میڈیا پر روئیے بارے مشاہدہ بالکل درست ہے کہ اب میں ٹینشن نہیں لیتا۔ کسی کی بات بری لگی تو اسے سلام کہہ دیا، راستہ بدل لیا۔ شروع ، شروع میں وضاحتیں دیتا تھا، خودکو درست ثابت کرنے کی کوشش میں جھگڑبھی پڑتا تھا۔ کوئی ضد کرتا تھا تو کہہ دیتا تھا، جناب یا جنابہ، مجھے ٹوئیٹس یا پوسٹس لکھ کر بھیج دیا کیجئے، میں شکریہ کے ساتھ شئیر کر دیا کروں گا، جس پر بہت سارے اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے تھے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی دوسرے کا موقف سنتے ہی تھانے دار اور جج بن جاتے ہیں۔ہم سب نے اپنے اپنے ذہنوں میں کچھ بت بنائے ہوئے ہیں، ہمیں اپنے بت سچے اور دوسروں کے جھوٹے لگتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب ہم پیدا ہوئے تو اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں تھا کہ کس ملک، مذہب، نظرئیے ، نسل ، رنگ اور روزگار والے والدین کے گھر میں پیدا ہونا ہے۔ ہم عمر بھر اس کا دفاع کرتے رہتے ہیں، اس کی خاطر لڑتے رہتے ہیں جس کو ہم نے اپنی مرضی سے چنا ہی نہیں ہوتا۔ میں جب پیدا ہوا تو مجھے ایک نام ہی نہیں بلکہ مذہب اور وطن بھی دیا گیا۔ میں جب سکول میں تھا تو مجھے ان تمام عقائد پر راسخ کیا گیا۔ میں نے اپنے ارد گرد جو ماحول دیکھا اس سے میں نے اپنے سیاسی نظرئیے کو پروان چڑھایا۔ ننانوے فیصد گھرانوں سے بھی زائد گھرانوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ اولاد مذہب تبدیل نہیں کرتی اور ننانوے فیصد سے کچھ کم گھرانوں میں سیاسی نظریہ بھی والدین والا ہی چلتا ہے۔
میں صحافی ہوں ، شک کرنا اور سوال کرنا میری عادت ہے مگر جو صحافی نہیں ہیں وہ کیا کریں۔اب آپ پوری پوری قوموں کو ہی دیکھ لیجئے کہ جہاں سوشلزم ہے وہاں اسے ہی حرف آخر سمجھاجاتا ہے۔ جہاں جمہوریت ہے اسے اتنا تقدس دیا جاتا ہے جیسے وہ مذہب کے قریب ہو اور جہاں مذہب ہے اس بارے تو دوسری بات سنی ہی نہیں جاتی، سوال کیا ہی نہیں جاتا۔ ہم جب ایک سیاسی نظریہ اپنا لیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہی دنیا کی آخری سچائی ہے جس تک ہم پہنچ چکے ہیں،اسی نظرئیے کو ماننا سب سے بڑی دیانت ہے سو اس کانتیجہ نکلتا ہے کہ ہم خود سے اختلاف کرنے والوں کوجھوٹے اور بددیانت سمجھ لیتے ہیں۔ میں اپنی سیاسی معاشرتی تعلیم کی با ت کروں تو جب میں سننا اور سمجھنا شروع کیا تو میرے ارد گرد یہی باتیں ہوتی تھیں کہ پیپلزپارٹی والے لبرل اور غدار ہیں اور ہمیں لبرل ازم کو اسلام کی ضد کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ میں اکثر ہنستا ہوں کہ پنجاب والوں کی اکثریت جو سوچتی ہے اس کے مطابق تو معذرت کے ساتھ سندھی تو غدار اور کافر ہوئے جبکہ دوسری طرف پیپلزپارٹی نے ہمیشہ شریف فیملی کو کرپشن کی علامت کے طور پر پیش کیا سو پنجابیوں کی اکثریت کرپٹ ہوئی اور سندھی ان کے مقابلے میں بڑے جمہوری اور ایماندار ٹھہرے۔تحریک انصاف نے اس سوچ کو انتہا دی کہ ان کے لیڈر کے علاوہ سب کرپٹ اور غدار ہیں۔ جب لوگوں کا مائنڈ سیٹ یہ ہوجائے توآپ مکالمہ نہیں کر سکتے، ایک دوسرے کو قائل نہیں کر سکتے، آپ صرف لڑ سکتے ہیں، صرف الزام لگا سکتے ہیں تو ایسے میں یہی بہتر ہے کہ سلام کہہ دیا جائے۔ میں ذاتی طور پر سمجھنے لگا ہوں کہ اگر کوئی اپنے نظریات میں انتہا پسند ہے ، چاہے وہ اس کی نظر میں کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ، وہ میری نظر میں ذہنی مریض ہے۔ سب لوگ کہتے ہیں کہ کنفیوژن بہت بری شے ہے، انسا ن کو حقیقت تک پہنچنا اور اس پر راسخ ہونا چاہئیے مگر میں سمجھتا ہوں کہ کنفیوژن بھی ایک نعمت ہے، یہ آپ کو انتہا پسندی سے بچاتی ہے جیسے اگر آپ خود کش بمبار کے ذہن میں شک پیدا کر دیں کہ ایسی شہادت کے بعداسے حوریں کیا جنت بھی ملے گی یا نہیں تو وہ شائد خود کش حملہ نہ کرے۔
ہر انسان میں توجہ حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ مقبول ہونے کی اس فطری خواہش نے بہت ساروں کے دھندے چلا رکھے ہیں۔ ہمارے بہت سارے دوست فالورز بڑھانے کے لئے اپنے والدین تک کو گالیاں پڑو الیتے ہیں مگر ذرا بھی بدمزا نہیں ہوتے ۔ مجھے یہاں پرویز مشرف یاد آجاتے ہیں جن کے ٹوئیٹر پر کئی برس پہلے سات لاکھ فالوورز تھے مگر جب وہ کراچی ائیرپورٹ پر اترے تھے تو ان کا استقبال کرنے والے سات سو بھی نہیں تھے۔ ہم اپنی ذاتی زندگی میں جب بیمار ہوتے ہیں یا مر جاتے ہیں تو ہماری عیادت کرنے والے، ہمارا جنازہ پڑھنے والے وہی ہوتے ہیں جن سے ہم نے حقیقی زندگی میں تعلق نبھایا ہوتا ہے، باقی تو ’گیٹ ویل سون‘ یا’آر آئی پی‘ لکھ کر کسی دوسری پسندیدہ پروفائل کو سکرول کرنے لگتے ہیں۔ہمارے سوشل میڈیا اور ہماری حقیقی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے ۔ سوشل میڈیا پر میری پروفائل میرے ڈرائنگ روم کی طرح ہے اور یہاں انہی لوگوں کو آنے کی اجازت ہونی چاہیے جن سے ہمارا رئیل یا ورچوئل لائف میں واقعی اچھا تعلق ہو۔ ہم اپنے اپنے ڈرائنگ روموں میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں، ختلاف بھی ہوتا ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ ڈرائنگ روم میں پہنچنے والا گالیاں دے رہا ہو اور ہم جواب میں مسکرا رہے ہوں، یہ غیر حقیقی ہے۔
اگر آپ سچ بولتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ کے فالوروز کی تعداد دس ہزار ہے یا دس ملین ہے، یہ فرق اس وقت پڑے گا جب آپ اپنے سچ کو کمرشلائز کریں گے۔ دوسرا فرق اس وقت پڑے گا جب آپ اپنے سچ کو اپنے فالوورز کے لئے کمپرومائز کریں گے۔ جب آپ ڈریں گے کہ آپ کے سچ سے آپ کو ان فالو کر دیا جائے تو آپ سچے اور جینوئن نہیں رہیں گے۔ ہمارے ہاں فالوئنگ لینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کی کاسہ لیسی شروع کر دی جائے اوراس کے حامی خود کار طریقے سے آپ کے فالوورز بنتے چلے جائیں گے مگر یہ طریقہ کسی صحافی کے لئے ہرگز قابل فخر نہیں ہے۔میں جانتاہوں کہ میری بہت ساری پوسٹس پیپلزپارٹی والوں کو پسند نہیں آتیں، مجھے کیا فرق پڑا جب جماعت اسلامی کے پیجز سے بھی مجھے ان کے سوشل میڈیا ہیڈ کی کمپین پر گالیاں دی گئیں، پی ٹی آئی پر تنقید کے جواب میں ان کے فالوورز کا روایتی مشہور ردعمل بھی ایک جاری عمل ہے مگر مجھے اس وقت خوشی ہوئی جب مریم نواز نے مجھے ’ان فالو‘ کیا اور ان کے میڈیا سیل کے کرائے کے لوگوں نے وہ تمام گالیاں دیں جودوسرے بھی نہیں دے سکے تھے۔سو کسی کے بارے کچھ اچھا کہہ سکتے ہیں تو ضرور کہیں ورنہ منہ بند اور ہاتھ کنٹرول میں رکھیں۔ میری زندگی وضاحتیں دئیے بغیر، دوسروں پر تھانے دار بنے بغیر ہی آزاد ہے، دلچسپ ہے، مزے دار ہے۔