خبر نہیں حساب دو

Naveed Chaudhry, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ملک پر اپنے ساتھیوں کا مکمل کنٹرول ، موافق عدلیہ اور اپنی ( کنگز ) پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود جنرل (ر) مشرف دبئی میں نمونہ عبرت بنے ہوئے ہیں ۔ ادھر پاکستان میں وہی دور آتا دکھائی دے رہا ہے جو وہ چھوڑ کرگئے تھے ۔پہلے پہل تو وہی کھیل شروع ہوا کہ افغان بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں سکیورٹی فورسز سے حملے شروع ہوئے ۔ پھر اسلام آباد میں 17 جنوری کی رات چار پولیس اہلکاروں پر موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔ اس واردات میں ایک اہلکارجاں بحق ہوگیا ۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے ناصرف یہ اعلان کیا کہ یہ واقعہ دہشت گردوں کی کارروائی تھی بلکہ اْن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس پر حملہ اشارہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی شروع ہو گئی ہے۔ تین روز بعد ہی لاہور کے مصروف ترین انارکلی بازار میں بم دھماکے میں بچے سمیت تین افراد جاں بحق اور 26 زخمی ہوگئے ۔ اس سانحے کے بعد نامعلوم تنظیموں کے دعوئوں اور حکومت کی بونگیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک بلوچ علیحدگی پسند تنظیم نے اس وادرت کی ذمہ داری قبول کی تو بلوچستان کے ایک اسٹیبلشمنٹ نواز مخصوص کریکٹر سرفراز بگٹی اس کے تصدیق کرنے لگے ۔ ادھر وفاقی اور صوبائی ترقیاتی اداروں کا یہ حال تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی مبینہ دھمکیوں کی آڑ لے کر داڑھی والے لوگوں کو ڈھونڈنے لگ گئے ۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو زخمیوں کی عیادت کیلئے جانے والے جے یو آئی ف کے دو کارکنوں کو میو ہسپتال سے اٹھا لیا گیا ۔ ساتھ ہی ایک قریبی عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں کو دھر لیا گیا ۔ یہ ساری مشق بے کار نکلی۔ اس سے پہلے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت میڈیا کو بتا چکے تھے کہ دہشت گردوں کے دو سہولت کار پکڑ لئے۔شیخ رشید کو یہاں تک فرما گئے کہ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ دہشت گردوں نے کہاں کھانا کھایا اور کہاں رکے ۔ کوئی ٹھوس چیز سامنے آنے سے پہلے ہی بتایا گیا اس سانحے میں’’ را ‘‘کا ہاتھ ہے ۔ اس کے بعد سے اب تک تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے ۔ المیہ ہے کہ حکومتیں خراب صورتحال کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنے سے باز نہیں آتیں ۔ دہشت گردی کی نئی لہر کے نام پر وزیر داخلہ شیخ رشید الٹا اپوزیشن کو دھمکانے  پر لگ گئے ۔ سینٹ کے اجلاس میں اپوزیشن کو پیغام دیتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو بھی سمجھایا تھا جلسہ نہ کریں‘پر انہوں نے کیا اور شہید ہوگئیں۔ اب پھر سیاستدانوں کو ’’تھریٹ‘‘ ہے۔وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ پچیس پچاس لاکھ دے کر مقامی جرائم پیشہ افراد سے حملے کرارہی ہے‘دہشتگرد کسی کا نہیں ہوتا‘ ایسا ہی کوئی کرائے کا ایجنٹ کوئی ‘‘مستی ‘‘کردے گا‘اپوزیشن سے گزارش ہے کہ 23 کی بجائے 27مارچ کو آجائیں‘ انہوں نے اپنی جانب سے یہ دھونس بھی جمانے کی کوشش کی کہ ‘23مارچ کو آدھا اسلام آباد کسی اور کے کنٹرول میں ہو گا، شیخ رشید نے یہ بھی کہا کہ بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان اور طالبان کے تعلقات بہتر ہوں ۔ اگرچہ اس تقریر کے دوران ایوان میں ہی جے یو آئی کے دبنگ رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے سخت جواب دے کر شیخ رشید کو دبک کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ۔ مگر اصل پیش رفت منگل کو اس وقت ہوئی جب پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں طے پایا کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ 23 مارچ کو ہی ہوگا ۔ اس طرح حکومت کی جانب سے تھریٹ کی وارننگ کو مسترد کردیا گیا ۔ یہ تماشا ہمارے ہاں ہی ہے اور طویل عرصے سے ہے کہ امن وامان برقرار رکھنے کے ذمہ دار ادارے اور عہدیدار اپنا کام کرنے کی بجائے ہمیں خبریں دیتے رہتے ہیں کہ گھر سے نہ نکلنا کہیں کچھ نہ ہوجائے۔ اب جب کہ ہائبرڈ نظام حکومت ہر محاذ اور ہر شعبے میں بری طرح سے پٹ چکا تو سیاسی جماعتوں کے پاس اس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے کہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں ۔ خصوصاً 
ان حالات میں جب پورے ملک کے لوگ حکومت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی کوسنا شروع ہوگئے ہیں کہ وہ مسائل میں گھرے پاکستانیوں کیلئے آواز بلند کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ شیخ رشید نے بینظیر بھٹو کی شہادت سے پہلے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس میں بھی یہی ہوا تھا کہ جب اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج نے سابق وزیر اعظم کو ان کی رہائش گاہ پر جاکر بتایا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے لہٰذا باہر نہ نکلیں ۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اس وقت بالکل درست طور پر جنرل ندیم تاج سے کہا تھا اگر آپ کو یہ اطلاع مل ہی گئی تو پھر مجرموں کو پکڑیں کیونکہ آپ کی ڈیوٹی خبریں دینا نہیں بلکہ عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ اس ملاقات  کے اگلے ہی روز محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا تھا ۔ مگر پیپلز پارٹی کے حلقے ہی نہیں دوسری سیاسی جماعتیں اور عوام کی غالب اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اصل قاتلوں کو پکڑنے اور ان کی نشاندہی کرنے کے عمل میں مصلحتوں سے کام لیا گیا ورنہ آئندہ کیلئے ایسی وارداتیں مکمل طور پر رک سکتی تھیں ۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا آج اگر حکومتی سائیڈ سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کی دھمکیاں دے کر سیاسی سرگرمیاں رکوائی جاسکتی ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے ۔ حکومت کے ترجمان قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے سے بھی سخت غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرکے انہیں متازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ شیخ رشید کا یہ کہنا کہ 23 مارچ کو آدھا اسلام آباد پریڈ کی وجہ سے کسی اور کے کنٹرول میں ہوگا ، اداروں کو حکومت کیلئے ڈھال بنانے کی کوشش ہے ۔ملک کے بڑے اور انتہائی تجربہ کار سیاستدانوں پر مشتمل پی ڈی ایم کیا اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ اس روز وفاقی دارالحکومت کا ایک حصہ فوجی دستوں کے کنٹرول میں ہوگا ۔اس اپوزیشن اتحاد میں شامل شخصیات کئی بار اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں ۔ اب اگر انہوں نے لانگ مارچ کیلئے 23 مارچ کی تاریخ تبدیل کرنے سے انکار کردیا ہے تو شیخ رشید سے پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے ایسا بیان دے کر کس کی خدمت کی ۔ ایک طرف تو کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی نئی لہر کا سامنا ہے ، دوسری جانب متضاد بیانات دئیے جاتے ہیں ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں داعش کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ، کبھی خبر آتی ہے کہ داعش ہی سے خطرہ ہے ۔ قومی سلامتی کے ایک اہم ادارے کی جانب سے واضح تردید کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح اشاروں میں داعش سے لاحق خطرات کا ذکر کیا۔ اگلے روز کے پی کے ، کے آئی جی بھی میڈیا پر داعش ، داعش کرتے رہے۔مانا کہ ہمیں ٹی ٹی پی ، را، بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں سے خطرات لاحق ہیں مگر بیانات جاری کرتے وقت یہ دیکھ لینا چاہئے کہ ایک ترجمان ، دوسرے ترجمان کی بات کے برعکس دعوے تو نہیں کررہا ہے ۔ شیخ رشید کا یہ کہنا کہ بھارت نہیں چاہتا کہ افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات اچھے رہیں ، مضحکہ خیز ہے ۔ یقیناً بھارت تو یہی چاہے گا مگر یہ نوبت آئی کیسے کہ اس بار بھی بھارت ، افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی راہ میں حائل ہوگیا ۔ اگر ہمیں افغان طالبان کی حکومت سے بھی وہی گلے شکوے ہیں کہ جو حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں سے تھے پھر بہتر ہوگا کہ ہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیریں ۔ شیخ رشید کے بیان میں ہی یہ رونا بھی رویا گیا کہ ’’ را‘‘ والے ہمارے ہاں جرائم پیشہ افراد کو پیسے دے کر دہشت گردی کی وارداتیں کرا رہے ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو اسے اعتراف سمجھ جانا چاہئے کہ ہماری اندرونی سکیورٹی کا نظام ناکارہ ہوچکا ۔ اب یہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ہمارے وسائل کا غیر معمولی حصہ سکیورٹی پر بھی صرف ہورہا ہے ۔بے تحاشہ  اخراجات اور بے پناہ اختیارات کے بعد نتائج بھی وہی ملنا لازمی ہیں جن کی توقع رکھی  جاتی ہے ۔ ہم ایک عرصے سے سنتے آرہے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی جائے گی ، کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ ، انہی دعووں کے دوران کہیں امید بھی بندھ جاتی ہے ۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ جب کے پی کے، افغان بارڈر سے ملحقہ علاقوں سمیت پورے ملک میںدہشت گردی کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں ۔ جرائم میں سلگتا کراچی بڑی حد تک امن کی علامت بن گیا تھا ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دو ٹوٹے پھوٹے جمہوری ادوار کے دوران ناراض بلوچوں کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لاکر پائیدار امن کی جانب پیش رفت شروع کردی گئی تھی ۔ اب اگر نئے سرے سے چیلنج آنا شروع ہو گئے ہیں تو ان اسباب کا ذکر کرنے کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔ صرف ڈرانے یا خبریں دینے سے کام نہیں چلے گا سب کو اپنے کام اور کارکردگی کا حساب دینا ہوگا جس کیلئے بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں ۔ ہر بار یہ کہہ دینا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں مناسب نہیں ۔ اتنے بڑی تعداد میں لوگ تو دو ممالک کے درمیان باقاعدہ بڑی جنگ میں مارے جاتے ہیں ۔ اگرچہ کئی حلقوں کو 80 ہزار ہلاکتوں کے اعداد و شمار کے درست ہونے پر شک ہے لیکن اگر انہیں درست مان بھی لیا جائے تو سوال یہی ہے کہ وہ کیا کررہے تھے جنہیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی ڈیوٹیاں سونپی گئی تھیں ۔ بالکل ویسے ہی جب سانحہ اے پی ایس کے بچوں کو شہید کہہ کر خراج عقیدت پیش کیا گیا تو ان کے غمزدہ والدین نے کہا ہم نے اپنے بچے پڑھنے کیلئے بھیجے تھے ، جنگ پر روانہ نہیں کئے تھے ۔وہ آج بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ سکیورٹی کی ناکامی پر ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ اب زیادہ دیر تک محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلایا جاسکتا ۔

مصنف کے بارے میں