دوستو،فکاہیہ کالم نگار مجید لاہوری مرحوم کے حالات زندگی میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وہ بچپن ہی سے پدرانہ شفقت و محبت سے محروم رہے تھے اور ان کو مجید لاہوری بنانے میں ان کی ہمت و استقامت اور غیروں کی معاونت نے اہم کردار ادا کیا تھا۔انگریزی کے مقبول مزاح نگار مارک ٹوین (Mark Twein)کے الفاظ میں ’’مزاح کا خفیہ ماخذ خوشی نہیں بلکہ غم ہے۔ جنت میں مزاح نہیں ہوگا‘‘۔۔سیاسی نظریہ دان، حنا آرنٹ اس کی یوں وضاحت کرتی ہیں، ’’کسی صاحبِ اختیار کا سب سے بڑا دشمن اور اسے زک پہنچانے کا سب سے یقینی طریقہ، قہقہہ ہے۔۔ جب مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن نے فلم دی گریٹ ڈکٹیٹر بنانے کا منصوبہ بنایا، جس میں نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کا مذاق اڑایا گیا تھا، تو اس نے کہا تھا ۔۔میں نے یہ کام کرنے کا تہیہ کر لیا ہے اس لیے کہ ہٹلر کی ہنسی اڑانا لازم ہے۔۔طنز کے موثر ہونے کے لیے یہ لازمی ہے کہ یہ معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہدف کو مضحکہ خیز بھی بنائے۔۔لیجنڈ مزاح نگارمشتاق احمدیوسفی نے اپنی ایک کتاب میں طنزومزاح کے متعلق تفصیل سے اپنی آراء کے اظہارکے ساتھ طنز ومزاح سے مغربی اورمشرقی اقوام کے مزاجوں کاموازنہ کرکے کچھ یوں متضادکیفیّت دریافت کرلی ہے۔۔انگریزصرف اْن چیزوں پرہنستے ہیں جواْن کی سمجھ میں نہیں آتی،پنچ کے لطیفے،موسم،عورت، تجریدی آرٹ۔اِس کے برعکس ہم لوگ اْن چیزوں پرہنستے ہیں جواب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں،مثلاًانگریز، عشقیہ شاعری،رْوپیہ کمانے کی ترکیبیں،بنیادی جمہوریّت۔۔۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جب طنز و مزاح سے دور ہونے لگتا ہے تو پاگل پن کے قریب ہو جاتا ہے۔۔کسی بھی تخلیقی کام کی اہمیت اس وقت صفر ہو کر رہ جاتی ہے جب وہ دوسروں کے لیئے آزار اور تکلیف کا باعث بننے لگے۔آج کل اس کام کو آزادی اظہار کہا جا رہا ہے جو کہ کسی بھی طور درست رویہ نہیں،طنز و مزاح کے معیار کے عدم توازن نے بہت سی الجھنوں کو جنم دیا ہے۔ اپنا دماغی بوجھل پن کم کرنے والے مزاح کی بجائے طنز برائے اصلاح کئی درجہ بہتر ہے۔مشہورِ زمانہ مزاح نگار اسٹیفن لی کاک اپنی کتاب Humour and Humanity’’میں مزاح کی تخلیق کے متعلق لکھتے ہیں۔۔’’مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے، جس کا فنکارانہ اظہار ہو جائے۔۔رشید احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ ۔۔’’طنز و ظرافت کا شمار دنیا کے مہلک ترین اسلحہ جات میں ہوتا ہے، اس کے استعمال کا منصب ہر وقت، ہر سپاہی یا پا پیادہ کو نہ ہونا چاہیے، بلکہ سپہ سالار کی خاص اجازت پر اور اس کی براہ راست نگرانی میں اس کو بروئے کار لانا چاہیے‘‘۔۔طنز و مزاح سے محظوظ ہونے کے لیے انسان میں اس صفت کا ہونا ضروری ہے جو اسے حیوانِ ظریف کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ مزاح صرف عیب جوئی، طعن و تشنیع یا فقرے بازی کا نام نہیں،بلکہ ہم آہنگی، تضاد میں امتیاز، نامعقولیت اور ناہمواریوں کو ایسے دل پذیر انداز میں اُجاگر کرنے کا نام ہے کہ سننے والا قائل ہو جائے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق:’’ہنسی انسانی جبلتوں میں سے ہے۔ اس جبلت کا اظہار تخلیقی سطح پر ہو تو مزاح جنم لیتا ہے۔ دوسروں کو بھی مزاح کی مسرت میں شریک کرنا مزاح نگار کا اوّلین فریضہ ہوتا ہے۔‘‘۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:’’اس میں کوئی شک نہیں کہ طنز سماج اور انسان کے رستے ہوئے زخموں کی طرف ہمیں متوجہ کر کے بہت بڑی انسانی خدمت سر انجام دیتاہے، دوسری طرف خالص مزاح بھی ہماری بجھی ہوئی پھیکی اور بد مزہ زندگیوں کو منور کرتا اور ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ فی الوقت افادیت کے نقطہ نظر سے دونوں ہمارے رفیق و غم گسار ہیں اور ہم ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے سے قاصر۔‘‘
طنز و مزاح کی مختلف قسمیں ہیں جیسے ہزل، تمسخر، استہزا، تضحیک، نوک جھونک، ہجو، پھبتی پھکڑ، لعن طعن، سب و شتم، ملیح مذمت، مضحکات، تعریض، تنقیص، جگت، فقرہ بازی، لطائف، پیروڈی اور آئرنی وغیرہ۔ مزاح کا مقصود محض ہنسنا ہنسانا اور خامیوں کا خوش دلی کے ساتھ اظہار کرنا ہے جبکہ طنز کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ خامی یا برائی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے، اس لیے طنز میں شدت زیادہ ہوتی ہے بنسبت مزاح کے،مزاح سے متعلق سنجیدہ گفتگو بہت ہوگئی، اب کچھ اوٹ پٹانگ گفتگو کرلیتے ہیں۔۔بریکنگ نیوز وہ ہوتی ہے جس کی کوئی بریک نہیں ہوتی وہ سیدھی چلی آتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ کون سا پروگرام چل رہا ہے۔۔باباجی فرماتے ہیں،تم لوگوں کی بات کرتے ہو، یہاں تو بالوں کے بھی دو منہ ہوتے ہیں۔۔ایک مکان پر مالک مکان نے مکان خالی ہے کا بورڈ لگا رکھا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ یہ مکان صرف ان لوگوں کو دیا جائے گا ، جن کے بال بچے نہ ہوں۔‘‘ ایک دن ایک بچہ مالک مکان کے پاس آیا اور بولا۔۔۔مہربانی کر کے یہ مکان مجھے دے دیجئے۔ میرا کوئی بال بچہ نہیں۔ صرف ماں باپ ہیں۔۔کل ہی باباجی اپنے پڑوسی کو لڑائی کے دوران طعنہ دے رہے تھے۔۔مجھے پتہ ہے تم جتنے نفیس ہو ، میں نے تم کو لوگوں کے ویاہ پر کئی بار روٹی کھاتے دیکھا ہے۔۔ایک خاوند سفر پر گیا تو دوسرے دن بیوی نے اس بڑا رومانٹک سے واٹس ایپ میسیج کیا۔۔آپ کے جاتے ہی گھر میں ہرطرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایاہوا ہے۔۔آدھے گھنٹے بعد گھنٹی بجی باہرالیکٹریشن کھڑا تھا۔۔۔ کہنے لگا ،باجی بجلی ٹھیک کرنے آیا ہوں ۔۔سنا ہے الیکٹریشن کو واپس بھیج کر خاتون خانہ نے اپنے جہیز کے ’’بکسے‘‘ سے ایم اے اردو کی ڈگری نکال کر جلا ڈالی۔۔مصروف ترین شوہر پہلی بار بچے کو اسکول سے گھر لایا اور بیوی سے بولا۔۔سوئٹ ہارٹ، یہ راستے بھر روتا رہا ہے کہیں یہ بیمار تو نہیں ہے ؟ بیوی نے غور سے بچے کو دیکھا اور چلاتے ہوئے بولی۔۔۔ یہ اس لیے رو رہا ہے کیونکہ یہ ہمارا بچہ نہیں ہے۔پتہ نہیں کس کا بچہ اٹھا لائے۔۔ فیصل آباد کے لوگ بڑے خوش مزاج ہوتے ہیں، موقع کوئی بھی ہو جگت سے باز نہیں آتے۔۔ وہاں ایک گھر میں آگ لگنے کا واقعہ ہوا، خاتون خانہ نے فائربریگیڈ کے دفتر فون کیا۔۔فون ریسیو کرنے والے نے فون پر مشورہ دیا کہ آپ آگ پر پانی ڈالیں،ہم نے بھی یہی کرنا ہے ہم نے کون سا آگ پر پیپسی ڈالنی ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جب انسان اپنی غلطیوں کا وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن جائے تو پھر فیصلے نہیں فاصلے ہواکرتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔