سوشل میڈیا پر ایک ہاشم چوہدری نامی نوجوان کی پوسٹ دیکھی اس نے لکھا تھا کہ میں فیصل آباد کے معروف علاقے ڈی گراؤنڈ کے ایک سگنلز پر رکا ہوا تھا اور میرے سمیت دوسرے کئی موٹر سائیکل سوار سب زیبرا کراسنگ پر کھڑے تھے کہ اتنے میں مخالف سمت سے فیصل آباد کے چیف ٹریفک آفیسر اپنی گاڑی سے اتر کرسادہ کپڑوں میں ہماری طرف آئے اور انہوں نے اس وقت جو ٹریفک وارڈن وہاں ڈیوٹی پر موجود تھااس کو بلایا اور کہا کہ ان موٹر سائیکل سواروں کا چلان کرو اور ساتھ ہی انہوں نے نازیبا گالی دی۔ اتنے میں سگنل گرین ہو گیا اور گاڑیاں چلی گئیں اور موٹر سائیکل سوار بھی ادھر ادھر بھاگ گئے۔ میں رکا رہا اور میں نے چالان کروایا یہی میرا فرض بنتا تھا۔ میں نے سی ٹی او صاحب سے عرض کیا کہ آپ نے میر اچالان تو کر دیا لیکن وہ چلے گئے۔ اس پر انہوں نے غصے میں مجھ سے گالم گلوچ شروع کر دی۔
اس قدر غصہ سمجھ سے باہر ہے میری ذاتی رائے میں حالات کیسے بھی ہوں، غصے پر کنٹرول کرنا چاہئے تھا۔ ان کی جاب کی اصل سائنس بھی یہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ ایک اس قدر سینئر لیول کا آفیسر اس طرح کا رویہ اپنائے گا تو اس کا نچلا عملہ تو آپے سے باہر پھرے گا۔ 11اپریل 2007ء کو اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹریفک وارڈنز نہ صرف ٹریفک کو بہتر بنائیں گے بلکہ شہریوں کو سڑکوں پر با اخلاق فورس نظر آئے گی۔ یہ آئیڈیا بہترین تھا کہ ٹریفک فورس سڑکوں پر آنے والے شہریوں کی نہ صرف ہر ممکن مدد کرے گی بلکہ ٹریفک قوانین کے نفاذ میںمہذب طریقہ اپنائے گی۔ لیکن کچھ عرصہ تک تو یہ سلسلہ چلا لیکن پھر جلد ہی وہی سابقہ روٹین شروع ہو گئی جو کہ پرانی ٹریفک پولیس کے اہلکار روا رکھا کرتے تھے۔ ہر جگہ ٹریفک پھنسی رہتی ہے وارڈنز بوکھلائے نظر آتے ہیں، پھنسی ٹریفک کو نظر انداز کرتے ہوئے وارڈنز تین تین، چار چار کی ٹولیوں میں کھڑے گپ شپ میں مصروف رہتے ہیں۔ شہریوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنگ کرتے رہتے
ہیں۔ نئے پڑھے لکھے وارڈنز نے فیصل آباد کے شہریوں سے ایسا ہتک آمیز رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ شہری پہلی ٹریفک پولیس کو بھول گئے ہیں۔ سارا سارا دن وارڈنز کی " خوش اخلاقیوں کے مظاہرے جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں"۔ کہیں وارڈن ہنسی مخول کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں دورانِ ڈیوٹی جوس اور چائے کی دوکانوں پر چائے و جوس پیتے نظر آئیں گے یا پھر موبائل استعمال کرتے پائے جائیں گے۔
فیصل آباد میں گزشتہ تین چار سالوں میں ٹریفک کا بہاؤ بہت زیادہ ہو گیا ہے ۔ سکولوں اور کالجوں کے علاقوں میں صبح 7 سے 8 بجے تک اور بعد دوپہر 2 بجے سے 3 بجے کے درمیان بچوں کو لانے اور لیجانے والی ٹرانسپورٹ یعنی موٹر سائیکلوں، رکشوں، ویگنوں، چنگچیوں، بسوں اور کاروں کی منظر کشی کی جائے تو ان دو اوقات میں خصوصاً 2 سے3 بجے دوپہر سکولوں اور کالجوں کے گرد و نواح میں حشر کا منظر ہوتا ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہوتا ہے، مذکورہ ٹرانسپورٹ وہیکلز نے تعلیمی اداروں اور نزدیکی رہائشی علاقے کا اس طرح گھیراؤ کیا ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گاڑیاں ہیلی کاپٹر سے اس مہارت سے وہاں اتاری گئی ہیں کوئی پیدل چلنے والا بھی ان کے درمیان میں سے نکل کر باہر نہیں آ سکتا اور گاڑیوں کے قریباً ایک گھنٹہ تک بجتے قسم قسم کے ہارنوں نے قیامت صغریٰ بپا کی ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے بچوں کو سب سے پہلے اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کے بعد آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ کاش ان کی گاڑی اڑن کھٹولہ بن جائے کیونکہ اس کے چاروں طرف کی گاڑیاں پیک ہوئی ہوتی ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کی گاڑی سواروں سے بد تمیزیاں عروج پر ہیں جب کہ خود پولیس اور وارڈنز کی وردی میں ملبوس اہلکار کی گاڑی رکی ہوئی گاڑیوں کے بیچ میں اشارہ توڑ کر بڑے فخر سے یوں گزر جاتی ہیں جیسے سرخ اشارے پر کھڑے عام لوگوں کو پیغام دینے کے لئے ہے کہ قانون کی اطاعت صرف عوام پر فرض کی گئی ہے۔ یہ عمل قانون کا احترام کرنے والوں کو لاقانونیت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ میں نے فیصل آباد کے ایک شخص کے پاس ڈرائیونگ لائسنس دیکھا جو خود بتا رہا تھا کہ اسے گاڑی چلانی نہیں آتی فیصل آباد میں وارڈنز اور ان کے اعلیٰ افسران نے بہت بری صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ فیصل آباد ان چند شہروں میں سے ایک شہر ہے جس کی طرف آبادی کا بہاؤ بہت زیادہ ہے۔ آبادی کا کنٹرول اور بڑے شہروں کی طرف آبادی کا رجحان روکنے کے لئے دیہات میں ذرائع آمدنی یعنی روزگار کی فراہمی بنیادی عناصر ہیں۔ لائسنس جاری کرتے وقت یہاں یہ بات بھی نظر انداز کی جا رہی ہے کہ ڈرائیونگ کی اہلیت جانچنے کے لئے صرف ڈرائیونگ کر لینا ہی کافی نہیں۔ اس میں مہارت کے علاوہ اخلاقیات کا بھی کافی دخل ہے۔ کہاں ہارن بجانا ہے، کہاں پارکنگ کرنی ہے۔ راستہ لینے کا حق اور راستہ روکنے کا جرم دو ایسے اصول ہیں جن کے بارے میں اکثریت لا علم ہے۔
یہ لاقانونیت، بد نظمی، بد انتظامی اور حکومتی اداروں میں لوٹ مار اور کرپشن سب اپنی جگہ موجود ہیں شائد اسی لئے ٹریفک کی بد نظمی پر خاطر خواہ توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اس مسائلستان میں جہاں نفسا نفسی کا عالم ہو کبھی توٹریفک کا نظام درست کرنے پر توجہ کی باری آئے گی۔ فیصل آباد کے وارڈنز میں وہ تمام باتیں بدرجہ اتم پیدا ہو گئی ہیں جو ماضی کے ٹریفک اہلکاروں میں ہوتی تھیں۔ دھونس، دھاندلی، بد تمیزی وغیرہ ان میں بہت حد تک سراعت کر چکی ہے۔ رشوت ستانی ان کا معمول بن چکا ہے سننے میں یہی ہے کہ اس رشوت کی تقسیم اوپر تک ہے۔
جو ٹریفک کی پاکستان میں صورتحال ہے میری طرح ہزاروں لاکھوں لوگوں کا یہ خواب ہو گا کہ ہمارے ملک خاص طور پر فیصل آباد شہر کا ٹریفک کا نظام درست ہو جائے۔ کچھ عرصہ قبل فیصل آباد میں یہ خبر گرم تھی کہ چیف ٹریفک آفیسر فیصل آباد نے ہر وارڈن کو ہر روز 25 چالان لازمی کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھاری جرمانوں سے ٹریفک نظام بہتر ہو جائے گا تو یہ محض خام خیالی ہے اصل ضرورت نیک نیتی سے انفراسٹرکچر بہتر بنانے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کی اصلاح ہے۔ اس کے لئے ٹریفک وارڈن کو اپنا رویہ بہتر کرنا ہو گا اور یہاں ٹریفک کلچر بنانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ جب یہاں ایک ٹریفک کلچر وجود میں آ جائے گا تو کوئی چیف ٹریفک آفیسر فیصل آباد کسی سے گالم گلوچ کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔