کالم آج میں کسی اور موضوع پر لکھ رہا تھا اچانک میرے عزیز چھوٹے بھائی عاطف اکرام (ڈی آئی جی) کے واٹس ایپ سے ایک میسج آیا، میں نے سوچا کالم سے فارغ ہو کر میسج پڑھتا ہوں، اس دوران دو تین دوست پولیس افسروں کی کالز آ رہی تھیں، یہ کالز بھی میں نے اٹینڈ نہیں کیں، پھر میری بیٹی کی کال آگئی، میں چاہے کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوں ایک اپنے والدین کی کال میں لازمی سْنتا تھا اور اب بیٹی کی سْنتا ہوں، اْس کی بات سْننے کے بعد میں نے سوچا اب کالم لکھنے میں تھوڑا وقفہ آ ہی گیا ہے میں زرا واٹس ایپ پر آنے والا عاطف اکرام کا میسج پڑھ لْوں، میسج نے دل دہلا کر رکھ دیا، مْلک کے جو حالات ہیں ہم جیسوں کے دل پہلے ہی بہت کمزورہو چکے ہیں، ایسے میں کسی انتہائی قریبی دوست یا عزیز کی اچانک موت کی خبر سے دل باقاعدہ بند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، عاطف اکرام کی اچانک رحلت کا میسج مجھے کسی اور کی طرف سے ملا ہوتا میں اسے ایک جْھوٹی اطلاع سمجھ کر نظر انداز کر دیتا، مگر یہ میسج اْس کے اپنے واٹس ایپ سے آیا تھا، میسج پڑھنے کے فوراً بعد میں نے اْس کے نمبر پر کال کی اْس کا نمبر مسلسل مصروف مل رہا تھا، پھر بیل ہوتی رہی کسی نے کالز اٹینڈ نہیں کی، تب مجھے یقین ہوگیا وہ واقعی مر گیا ہے، اس لئے کہ وہ میری کال ہمیشہ پہلی بیل پر اٹینڈ کرتا تھا، وہ مجھے ”بھائی جان“ کہتا تھا، میرا بھائی چلے گیا، شعیب بن عزیز کا شعر ہے
کوئی روکے کہیں دست اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
لوگ تو پہلے بھی مرتے تھے، حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہونے لگا ہے اب اچھے لوگ مرتے جا رہے ہیں، ابھی میرے محترم بھائی ڈاکٹر معین مسعود (ڈی آئی جی) کی مجھے کال آئی، اْنہیں اس خبر کا یقین ہی نہیں آ رہا تھا, میں نے اْنہیں بتایا یہ میسج مجھے عاطف اکرام کے اپنے نمبر سے آیا ہے، پھر وہ افسردہ ہوگئے، اْنہوں نے بتایا ”وہ میرے ماتحت رہا ہے، اتنی محبت مروت والا اور اس قدر محنت کرنے والا انسان شاید ہی کوئی میں نے دیکھا ہوگا، وہ اپنے کام کو سمجھتا تھا، اْسے سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی“۔۔ یہ بات کوئی اور نہیں وہ افسر (معین مسعود) کہہ رہے تھے جو خود بھی ویسے ہی اوصاف کے مالک ہیں جیسے اوصاف وہ عاطف اکرام کے بتا رہے تھے، پھر میرے ایک اور محترم بھائی سینئر بیوروکریٹ جناب بابر حسن تارڑ کا میسج آگیا۔ اْنہوں نے بتایا جب اْن کی پوسٹنگ ساہیوال میں تھی عاطف اکرام بھی وہیں تھا، عاطف اکرام کے بارے میں اْن کے جذبات بھی وہی تھے جو معین مسعود کے تھے۔۔ اب تو خیر دْنیا سے وہ چلے گیا ہے، جانے والوں کے لئے ہمارے لوگ عموماًاچھا ہی کہتے ہیں، یہی ہمارے دین کا حکم بھی ہے، مگر وہ جب زندہ تھا تب بھی اْس کے بارے میں لوگوں سے ہمیشہ اچھا ہی سْنا، وہ ایک دوست دار آدمی تھا شاندار آدمی تھا، میرے عزیز چھوٹے بھائی سرفراز ورک (ڈی آئی جی) کے ساتھ اْس کی دوستی کا عالم یہ تھا کوئی دن شاید ہی ایسا ہوتا ہوگا جب یہ دونوں نہ ملتے ہوں یا فون پر بات نہ کرتے ہوں، اْس کی اچانک موت کا ہم سب کو دْکھ ہے مگر یہ خبر سْن کر سرفراز ورک پر کیا گْزری ہوگی؟ میں اْس کا بخوبی تصور کر سکتا ہوں، میرے محترم بھائی میاں عادل رشید نے میری موجودگی میں سرفراز ورک سے فون پر تعزیت کی، اْنہوں نے اشارے سے مجھے بھی کہا آپ بھی بات کر لیں، میری ہمت نہیں پڑی میں ایسے شخص سے بات کرتا جس کا بہترین ساتھی اچانک اْس سے بچھڑ گیا، پورا محکمہ افسردہ ہے، بے شمار پولیس افسران مجھے یوں کالز اور میسجز کر رہے ہیں جیسے اْن کے گھر کا کوئی فرد چلے گیاہے، خود میری حالت سنبھل نہیں پا رہی،یہ جو آپ پڑھ رہے ہیں اسے میرا کالم مت سمجھئے گا، غم کی اس حالت میں اللہ جانے کیا کیا بونگیاں میں مارتا چلے جا رہا ہوں، ابھی میں اپنے حواس میں نہیں، جب میں اپنے حواس میں ہوں گا پھر میں آپ کو بتاؤں گا اْس کے چلے جانے سے ہم دوستوں اور محکمہ پولیس کا کتنا نقصان ہو گیا ہے، ابھی چند ماہ پہلے وہ میرے پاس بیٹھا تھا وہ اپنے محکمے کی روز بروز بڑھتی ہوئی تنزلی اور بدحالی پر اپنا دل بْرا کئے بیٹھا تھا, میں نے کہا ”کوئی اور بات کرو“، وہ چْپ ہوگیا، اب مجھے ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
سْنے جاتے نہ تھے تم سے میرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ اب میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
دائم کا ایک شعر ھے
دائم آباد رھے گی دْنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
یار عاطف اکرام یقین کرو تم سا کوئی نہیں ہوگا، ایک بات کا مجھے ہمیشہ دْکھ رہے گا جاتے ہوئے تم مجھ سے مل کر نہیں گئے، یاد ہے ہم نے ملنے کا وعدہ کیا تھا، یاد ہے اک دن تمہارا میسج آیا تھا تم نے مجھ سے کہا ”بھائی جان میں ایک بہت ضروری مصروفیت کی وجہ سے راحیل کی شادی پر نہیں آسکا مجھے آج کوئی وقت دیں میں آنا چاہتا ہوں“ کاش میں اْس روز اسلام آباد نہ گیا ہوتا، میں نے تمہیں اسلام آباد کی اپنی لْوکیشن بھیجی فوراً تمہاری کال آگئی تم نے مجھ سے کہا ”بھائی جان میرا اور آپ کا برسوں سے اعتماد کا ایک رشتہ ہے آپ ویسے ہی بتا دیتے، آپ کو لْوکیشن بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟“۔۔ میں نے کہا ”میں کل لاہور واپس پہنچ کر تمہیں میسج کروں گا پھر تم آجانا“ ہائے میں نے تمہیں میسج کر لیا ہوتا، ہائے ہم نے مل لیا ہوتا، کچھ دل کی ضباتیں تم کر لیتے کچھ میں کر لیتا، دوستوں کی ترقی پر تم کتنے خوش ہوتے تھے، رانا ایاز سلیم کو جب سی پی او گوجرانوالہ تعینات کیا گیا تم نے بطور خاص فون پر مجھے مبارک دی، میں نے تم سے کہا آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان صاحب میری بہت عزت کرتے ہیں، میں اْن سے تمہاری فیلڈ پوسٹنگ کی بات کروں؟”تم نے کہا وہ میرے مہربان ہیں جب مناسب سمجھیں گے خود ہی کچھ کر دیں گے“۔۔ یار تم کیا چیز تھے؟ جس محکمے سے تمہارا تعلق ہے اْس میں لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں، ایک تم تھے صرف اپنے سینئرز کی نہیں اپنے جونیئرزکی بھی عزت کرتے تھے، اْن کی ترقیوں پر خوش ہوتے تھے، کاش تم اتنے اچھے نہ ہوتے کہ اتنی جلدی چلے جاتے، اللہ جانے ہمارے اچھے لوگ اتنی جلدی کیوں چلے جاتے ہیں؟ ابھی میں تمہارا جنازہ پڑھ کے آیا ہوں، سب تمہارا آخری دیدار کر رہے تھے میں ایک کونے میں کھڑا تھا، مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کفن میں لپٹے تمہیں دیکھتا، میں تمہیں ہمیشہ زندہ دیکھنا چاہتا ہوں، تم ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہو گے۔