7 فروری کو میں نے ایک کالم لکھا تھا کہ نیازی صاحب یہ مانگ بھرو سجنا فلم نہیں ہے آپ جیل بھرو تحریک کا اعلان کر چکے ہیں۔ سکرپٹڈ سیاست میں کردار ادا کرنا اور حقیقی سیاست کرنے میں اتنا ہی فرق ہے جتنا شیخ سعدیؒ اور شیخ رشید میں۔ 2014 میں حکومت تو میاں نوازشریف کی تھی مگر حکم عمران نیازی کا ہی چلتا تھا۔ سیاست دان تو صدر زرداری ہی تھے مگر سیاست عمران کی چلتی تھی۔ اتحاد کی حیثیت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کچھ نہیں۔ ایم کیو ایم، ق لیگ، باپ اور سب سے بڑھ کر فیض حمید اور جنرل باجوہ نیازی صاحب کے طاقتور ترین ساتھی تھے۔ نیازی صاحب خود فرماتے ہیں کہ بل پاس کرانا ہوتے تو ایجنسیوں سے مدد لینا پڑتی تھی۔ گویا مکالمہ نہیں کرنا، قائل نہیں کرنا، دلائل نہیں دینے، سمجھوتہ نہیں کرنا، آئین نہیں دیکھنا ایجنسیاں دیکھنا ہوتی تھیں۔ 2011 کے جلسہ کے بعد عمران نیازی کو اس حد تک سکرپٹ کے ساتھ آگے بڑھایا گیا اب ان کے پاس خود چلنے کی صلاحیت کی توقع رکھنا نیازی صاحب پر بوجھ ڈالنے والی بات ہے لہٰذا نیازی صاحب جیل بھرو تحریک کی بڑھک مار بیٹھے اور حالت یہ ہے کہ ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک مخولیہ جس کو کوئی شادی بیاہ نہیں ملتا تھا مزدوری کر نہیں سکتا، اہل میراث کا چشم وچراغ لبھا، تھک ہار کر گھر بیٹھا ہوا اللہ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ یا اللہ روٹی نہیں کوئی کام اور عزت نہیں تُو مجھے موت ہی دے دے۔ اگلے ہی لمحے کوئی غیبی شخصیت آ گئی یا اس کا وہم تھا، اس نے کہا چلو بھئی میرے ساتھ۔ لبھا ڈر گیا، اس نے کہا تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ ابھی تم موت مانگ رہے تھے میں آ گیا ہوں۔ لبھا خوف زدہ ہو کر انتہائی بے چارگی، مایوسی، منت اور مسکینی کی تصویر بنے اسے کہتا ہے ”یار اسی اپنے گھر وچ کلیاں بہہ کے گل وی نئیں کر سکدے؟“۔ مولا خوش رکھے، ادھر ہم نے بات کی اور اُدھر تم آ گئے۔ یہی صورت حال پی ٹی آئی کی ہے کہ جیل بھرو تحریک کی تکمیل کے لیے متعلقہ پولیس گھر گھر جا کر چوکوں، چوراہوں میں اعلان کر رہی ہے کہ آؤ گرفتاری دینے والے، کے پی کے میں محمود خان کے گھر کے باہر منادی کرائی گئی۔ جیسے کبھی رمضان میں سحری اور افطار کے وقت جگانے اور روزہ کھولنے کا اعلان کرنے والے آتے تھے۔ بھگت سنگھ، نیلسن منڈیلا آگے آگے اور پولیس
پیچھے پیچھے ہے۔ وٹو دور میں شیخ رشید (نوابی شوق والے) پر کلاشنکوف کا مقدمہ درج ہوا، مقدمہ سچا اور درست تھا۔ ضیا الحق کے بیٹے نے ایک جلسہ میں کلاشنکوف لہرائی کہ مجھ پر بھی مقدمہ درج کر دو، اس پر بھی مقدمہ درج کیا گیا، گرفتار ہوا۔ رات بھر تھانے میں باتھ روم کے قریب گزاری بار بار جانا پڑتا تھا، صبح مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا تو موقف اختیار ہوا کہ وہ لہرائی جانے والی کلاشنکوف کھلونا تھی۔ گویا مرد حق مرد مومن کے بیٹے کی کلاشنکوف 24 گھنٹوں میں کھلونا بن گئی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے رنگباز رہنماؤں کی گرفتاری 24 گھنٹوں میں نمائشی گرفتاری بن گئی۔ بندہ پوچھے نمائشی گرفتاری کیا ہوتی ہے؟ کسی کو بواسیر ہے، کسی کو شوگر ہے، کسی کی ٹانگ شیشے کی نکل آئی ہے، کسی کا کچھ ہے۔ اتنا بھٹو بننے کی کیا ضرورت تھی جب اصلیت میں تم ڈرامہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال حکمران اتحاد کے لیے سخت امتحان ہے۔ راجن پور کے ضمنی انتخاب میں محسن لغاری کے ذاتی ووٹ ہیں ورنہ پی ٹی آئی کا معاملہ ایسے ہی ہے، اس کو امیدوار اچھا مل گیا۔ یہ عام انتخابات کی نشاندہی نہیں کر سکتا۔ آج کل پی ٹی آئی کا ووٹر چارج ہے جبکہ دیگر جماعتیں ابھی انتخابی سیاست کی طرف نہیں آئیں اور ویسے بھی حکومت کرنے والی جماعتوں کا ووٹر ہمیشہ شانت ہوا کرتا ہے۔ مریم نواز کی آمد کے بعد عمران نیازی کا وہ سیاسی قد سائز میں واپس آیا ہے۔ بلاول بھٹو کے متحرک ہونے کے بعد مزید تبدیلی ہو گی میاں صاحب اور صدر زرداری کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا انتخابی سیاست میں سرگرم ہونا سیاسی نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔ تین ماہ میں معاشی صورت حال یکسر بدل چکی ہو گی۔ نیازی صاحب کے مقدمات کی صورت بھی نمایاں ہو جائے گی اور پی ڈی ایم پر بنے ہوئے جھوٹے مقدمات بھی انجام کو پہنچ چکے ہوں گے۔ آئندہ سیاسی مستقبل بلاول بھٹو، مریم نواز، نوازشریف، صدر زرداری، مولانا فضل الرحمن اور ان کے اتحادیوں کا ہو گا جبکہ نیازی صاحب ایک بھیانک ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ لکھ کر دے رہا ہوں تا کہ سند رہے۔
جیلوں میں جانے سے تحریک انصاف کے لوگوں کو سیاسی مکالمے کی اہمیت کا پتہ چلے گا۔ بلاول بھٹو کا یہ مطالبہ کہ نیب کے دائرہ کار میں ججوں کو بھی آنا چاہئے بالکل جائز ہے تاکہ جج صاحبان کو علم ہو سکے کہ نیب حکام کس طرح کام کرتے ہیں، کیا سوال کرتے ہیں اور ان کے انداز کیا ہیں۔ پھر عدلیہ کو سمجھ آئے گی اور احساس ہو گا کہ فرد اور ریاست کا معاہدہ ٹوٹ رہا ہے۔ فرد کا ریاست سے اعتماد اُٹھ رہا ہے۔ معاشرت اور ریاست کا ہر شعبہ انحطاط پذیر اور روبہ زوال ہے۔ اجتماعی اور انفرادی کردار ناقابل بیان حد تک عدم بھروسہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ آپ پٹرول پمپ پر کھڑے پٹرول ڈالنے والوں کو ہی دیکھ لیں وہ گاڑی کا شیشہ توڑنے کی حد تک کھٹکھٹائیں گے۔ ان کو علم ہے کہ ان کا میٹر اور ان کا ہاتھ بھروسے کے قابل نہیں اور توجہ چاہیں گے۔ حالانکہ ساری واردات میٹر کے کسی اور انداز میں ڈالی گئی ہوتی ہے۔ آپ پراڈو پر سبزی اور پھل خریدیں ریٹ اور ہو گا موٹرسائیکل پر جائیں اور ہو گا اور پیدل کے لیے وہی دکاندار مگر نرخ مختلف ہوں گے۔ ایک کہرام سا مچا ہوا ہے۔ ایسے میں عمران نیازی جیل بھرو تحریک چلائیں گے تو کیا لوگ پوچھیں گے نہیں کہ 4 سال میں جو گل کھلائے ہیں اب ذرا صبر کرو۔ حکمران اتحاد تو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی یرغمال ہے۔ کسی کی پوسٹنگ ٹرانسفر کرنا ہو تو عدلیہ کے فیصلے کا ڈر ہے حالانکہ عدلیہ کا انتظامی امور سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ مگر ایک مداخلت ہے جس کا رواج نیا نہیں البتہ المیہ یہ ہے کہ روز بروز یہ رجحان بڑھتا ہوا پایا گیا ہے۔ عدالتی ایکٹوازم میں جسٹس افتخار کے دور سے تیزی آئی۔ اس تیزی کا سبب صرف یہی تھا کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور اس ملک کی تاریخ یہ ہے کہ صرف پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے نظام ہی لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر جسٹس کھوسہ، گلزار اور آج تک اس رجحان میں کمی نہ آ سکی۔ ادارے اور ان کے سٹیک ہولڈر اگر آج بھی آئین اور پارلیمنٹ کو مقدم جانیں تو سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام وطن عزیز کو مزید انحطاط سے بچا سکتا ہے۔ عمران نیازی سکرپٹ کے آدمی ہیں، فلم کے آدمی ہیں، افسانے کے آدمی ہیں حقیقت سے کیا تعلق۔ لہٰذا مانگ بھرو سجنا اور بات، جیل بھرو تحریک اور بات ہے۔ جیل بھرو کے لیے گاندھی، حسرت موہانی، محترمہ بے نظیر بھٹو، جناب ذوالفقار علی بھٹو کا کردار ہونا لازمی ہے۔ جس تحریک کے لیڈر خود بھگوڑے ہوں وہ چلنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا کرتی ہے، جیسے اب جیل بھرو تحریک ہے۔